ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
نے کہا کہ میاں آدھ سیر روئی کی رضائی بنا لو بس جاڑہ جاتا رہے گا ـ چنانچہ ایسا ہی ہوا تو بولے یہ جاڑہ بڑا کافر ہے اللہ کے نام سے نہ گیا رسول کے نام سے نہ گیا ایک آدھ سیر روئی سے چلا گیا بڑا بے ایمان کافر ہے ـ بعد نماز جمعہ 6 رجب 1357ھ مکان پرقبض باطنی 45 ـ فرمایا رامپور میں ایک پیر صاحب تھے ان پر قبض باطنی طاری ہوا تو ان کو یہ وہم تو گیا کہ میں مردود ہو گیا ـ لوگوں سے کہا کرتے کہ میں تو شیطان ہوں ـ فلاں مولانا صاحب کی خدمت میں گئے جو صاحب طریقت بھی تھے ـ انہوں نے پوچھا تم کون ہو بولے میں شیطان ہوں انہوں نے ویسے ہی سرسری طور پر فرمایا شیطان ہو تو لاحول ولا قوۃ الاباللہ یہ سن کر وہ اٹھ کر آ گئے اور آ کر اپنے ایک مرید سے کہا کہ اب تو ایک شیخ نے بھی تصدیق کر دی ہے تو واقعی میں شیطان ہوں اور ایسی زندگی سے تو مرنا ہی اچھا ہے دیکھو میں خود کشی کرتا ہوں اگر کچھ کھال لگی رہ جائے تو تم الگ کر دینا ـ چنانچہ پیر صاحب نے خود کشی کر لی اور یہ مرید بھی ایسے فرمانبردار تھے کہ انہوں نے بعد زہوق روح رہی سہی کھال الگ کر دی پولیس نے آکر گرفتار کر لیا ـ نواب کلب علی خان کا زمانہ تھا ان کے یہاں مقدمہ پیش ہوا ان مرید نے کہا کہ شیخ کے بعد ہی زندہ رہ کر کیا کروں گا ـ مگر واقعہ یہ ہے ـ فرائن سے اور ان مولانا صاحب کی تصدیق سے نواب صاحب کو یقین آ گیا اور ان کو چھوڑ دیا ـ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے جب یہ قصہ سنا تو فرمایا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ فلاں مولانا صاحب شیخ ہیں مگر معلوم ہوا نرے مولوی ہی ہیں ـ اگر یوں کہہ دیتے کہ خیر شیطان ہو تو کیا ہے وہ بھی تو اسکا ہے (یعنی ان کی نسبت پھر بھی باقی ہے ) تو انکا قبض فورا دور ہو جاتا ـ یہ ہے محقق کی شان مگر مولانا کی اس تقریر پر ایک شبہ میرے دل میں پیدا ہوا وہ یہ کہ جو نسبت مطلوب ہے وہ رضاء کی نسبت ہے اور شیطان کی جو نسبت ہے وہ محض تکوین کی ہے پھر حضرت مولانا نے اس جواب کو کافی شافی کیسے فرما دیا ـ الحمدللہ جواب بھی میرے ذہن میں آ گیا وہ یہ کہ ایک درجہ تحقیق کا ہے ایک