ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
اپنی رضا کو بڑوں کی رضا پر قربان کر دے 88 ـ فرمایا حدیث شریف میں ہے کہ حضرت رسول مقبولؐ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا ـ آپ نے قیمت ادا فرمائی ـ انہوں نے قبول کر لی ـ حقیقۃ حضورؐ کا یہ معاملہ امت کیلئے تعلیم ہے کہ معاملہ اس طرح کرنا چاہئے تاکہ راحت نصیب ہو ـ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہر گز دام لینے کے مشتاق و خواہش مند نہ تھے ـ مگر حضورؐ کی رائے مبارک کو اپنی خواہش پر ترجیح دی ـ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی عموما یہی عادت تھی کہ حضورؐ کی مرضی کو اپنی تمام خواہشوں پر ترجیح دیتے تھے ـ جس حالت میں حضورؐ خوش ہوتے یہ حضرات اسی حالت میں راضی رہتے تھے ؎ راضی ہوں میں اسی میں جس میں ہوں آپ راضی میری وہی خوشی ہے جو آپ کی خوشی ہے معاملات میں صحابہ کرام کی بے تکلفی 89 ـ فرمایا حضورؐ نے صحابہ علیہم الرضوان کو بالکل بے تکلف کر رکھا تھا ـ ہر شخص شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے معاملہ اور رائے میں آزاد تھا ـ کوئی شخص دب کر معاملہ نہیں کرتا تھا ـ ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی جن کے مزاج میں کسی قدر خوش طبعی تھی ـ ایک مجمع میں بات چیت کر کے لوگوں کو ہنسا رہے تھے ـ حضورؐ نے مزاحا ان کے پہلو میں ایک چھوٹی سی لکڑی جو آپؐ کے دست مبارک میں تھی چبھو دی ـ انہوں نے کہا کہ میں انتقام لوں گا ـ حضورؐ نے فرمایا ـ لو انتقام لے لو ـ انہوں نے عرض کیا آپ تو پیراہن پہنے ہوئے ہیں اور میرے بدن میں پہراہن نہیں اور میں برہنہ ہوں (یعنی آپ بھی پیراہن اٹھائیے) حضورؐ نے یہ سن کر اپنا پیراہن اوپر کو اٹھا لیا ـ یہ دیکھ کر وہ انصاری حضورؐ سے لپٹ گئے اور پہلو مبارک کو بوسے دینے لگے اور عرض کیا میرا تو یہ مقصود تھا ـ (یعنی میری کیا مجال تھی کہ میں حضورؐ سے انتقام لینے کا وسوسہ بھی دل میں لاتا ہو ـ میرا مقصود تو یہ تھا کہ اس طور پر حضورؐ کے پہلوئے اقدس کے چومنے کی