ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
(70) کسی نور لطیفہ کا بسرعت زائل ہونا بعض اوقات توجہ الی اللہ کیلئے مفید ہوتا ہے ـ ایضا (71) سلطان الاذکار میں کبھی اپنا جسم بہت بڑا معلوم ہوتا ہے جو علامت بقاء کی ہے اور کبھی لاشے محسوس ہوتا ہے جو علامت فنا کی ہے ـ ص 41 (72) سلطان الاذکار میں اپنا جسم اوپر کی طرف جاتا ہوا معلوم ہونا ملکوت سے مناسبت کی علامت ہے ( ایضا (73) اگر اصلاح باطن اس غرض سے کرے کہ لوگوں کو بیعت کروں گا تو اس کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی ہے ـ ص 42 (74) بیعت لینے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اپنے کو اہل نہ سمجھے ـ ایضا (75) ( الف ) اگر سالک کے صفات ذمیمہ جس قدر ہیں سب مبدل بہ صفات حمیدہ ہو جائیں تو اس کو اصطلاح میں فنائے حسی اور واقعی کہتے ہیں اور صفات حمیدہ کے پیدا ہونے کو بقاء کہتے ہیں ـ ص 42 ( ب ) اگر غلبہ شہود و ذات و صفات حق کی وجہ سے اپنی ہستی سے بے التفات ہو جائے یا لاشے خیال کرے تو اس کو اصطلاح میں فنائے علمی کہتے ہیں ـ ایضا ( ج ) اگر اس علم فنا سے بھی ذہول ہو جائے تو اس کو فنا در فنا اور فناء الفناء کہتے ہیں ـ ص 42 ( د ) اور اس کے بعد جو کیفیت حاصل ہو اس کو بقاء البقاء کہتے ہیں ـ ایضا ( ھ ) اور سیرالی اللہ جس سے مراد انقطاع ما سوا اللہ ہے یہاں ختم ہو جاتا ہے ـ ص 43 ( و ) سیر فی اللہ دوام توجہ الی اللہ سے شروع ہوتا ہے جس کی تجلی و مشاہدہ کی کوئی حد نہیں ہے ـ ایضا ( ز ) اور غلبہ حال یا مکاشفہ میں جو چیز منکشف ہوتی ہے اس کو تجلی مثالی کہتے ہیں کیونکہ وہ مثال ہے تجلی حقیقی کی جو آخرت میں ہو گی ـ ایضا (76) معرفت ہر شخص کی بقدر محبت و تقوی کے ہوتی ہے ـ ایضا (77) آخرت میں ہر شخص کو اس کی معرفت و تقوی کے موافق دیدار ہو گا ـ ایضا (78) جیسا کہ اس عالم میں معرفت سے سیری نہیں ہوتی وہاں بھی دیدار سے سیری نہ ہو گی ـ ایضا (79) فنا میں بے خودی نہیں ہوتی جس میں بے خودی ہوتی ہے اس کو اصطلاح میں غیبت