ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
بزرگ کے ساتھ عقیدت و محبت کا تلبس ہے ـ اس لئے ہم آپ کی اس رحمت موعودہ کے طلب گار ہیں ـ اب فرمایئے کہ اس میں احیاء اور اموات کا کیا فرق رہ گیا ـ مجھ کو یقین ہے کہ اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد ابن تیمیہؒ اگر زندہ ہوتے تو علی الاطلاق توسل بالاعیان الموتی کی ممانعت سے رجوع فرما لیتے مگر اب بھی میں ان کے قول کی یہ توجیہہ کرتا ہوں کہ توسل ممنوع سے مراد ان کی وہ توسل ہے جو فریاد واستغاثہ تک پہنچا ہوا ہو ـ اور مطلقا توسل بالموتی کی ممانعت نہیں کرتے ہیں یا یہ توجیہ کی جائے کہ توسل ممنوع تو وہی توسل ہے جو فریاد وستغاثہ کی شکل میں تو مگر انہوں نے سداللباب مطلقا ممانعت کر دی تاکہ عوام جائز توسل سے نا جائز میں نہ پھنس جائیں ـ کیونکہ توسل صرف مباح اور جائز ہی ہے ـ مقاصد واجبات سے تو ہے نہیں اور جس جائز امر سے فتنہ و گمراہی کے پھیلنے کا اندیشہ ہو ـ اگر اہل علم اس سے روک دیں تو کچھ مضائقہ نہیں ـ خلاصہ یہ ہے کہ نہ مطلقا توسل بالموتی کی ممانعت ہے جیسے ابن تیمیہؒ کا ظاہر قول ہے اور نہ یہاں تک جواز کا ثبوت ہے کہ ان سے حاجت یا بدرجہ احتیاط دعا کی درخواست کی جائے ـ بین بین درجہ وہ ہے کہ جس کو میں نے بیان کر دیا ان کے طفیل سے دعا کر لیجائے جس کی حقیقت طلب رحمت موعودہ بالتلبس ہے خواہ تلبس صدور کا ہو کمافی الاعمال خواہ محبت کا ہو کمافی الاعیان ـ پس اعتدال پر رہ کر افراط و تفریط سے بچنا لازم ہے ـ سماع موتی 4 ـ ایک صاحب نے سماع موتی کے متعلق دریافت کیا فرمایا کہ اہل کشف تو عموما سماع موتی کے قائل ہیں اور اس مسئلہ میں میں انہیں کا معتقد ہوں ـ کیونکہ مجھے ظن غالب ہے کہ موتی سنتے ہیں ـ دیکھئے حدیث میں صاف وارد ہے وانہ لیسمع قرع نعالھم یعنی مردہ گورستان میں آنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور خبر واحد موجب ظن ہی ہو سکتی ہے ـ فقہاء حکماء اسلام میں 5 ـ ایک گفتگو کے دوران میں فرمایا فقہاء جن کو لوگ خشک کہا کرتے ہیں وہ کس قدر ادب کی