ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
ہے اور بے تکلفی کرتے ہیں تو اتنی کہ بے ادب بن جاتے ہیں ـ غرض یا افراط ہے یا تفریط اعتدال عنقا ہے حالانکہ ہر شے میں حدود و قیود کی رعایت ضروری ہے ـ تاکہ اعتدال قائم رہے ـ احتیاط 14 ـ فرمایا ہمیشہ سے میرا معمول ہے کہ اگر کوئی شخص مجھ کو کھانے کے لئے مدعو کرتا ہے تو میں تنہا جاتا ہوں کسی کو ساتھ نہیں لے جاتا ـ سفر میں بھی ہمیشہ اسی قاعدہ پر کار بند رہا ہوں ـ اگر کبھی کسی ضرورت کی وجہ سے کسی کو ساتھ لیا ہے یا کوئی اپنی خوشی سے میرے ہمراہ ہو گیا ہے تو اسکا بار بلانے والے پر کبھی نہیں ڈالا ـ اس کے طعام وغیرہ کا انتظام علیحدہ کیا گیا ـ اگر میزبان نے ہمراہی کے قیام وغیرہ پر اصرار بھی کیا تو میں نے صاف کہہ دیا کہ بجائے مجھ سے کہنے کے ان سے خود براہ راست کہئے ـ مجھ کو واسطہ نہ بنائیے ـ اگر وہ مجھ سے اجازت مانگیں گے تو جو مصلحت ہو گی دیکھا جائے گا ـ اسی طرح ہمراہیوں کو اسکی ممانعت تھی کہ وہ بلا اجازت کسی کی دعوت قبول نہ کریں ـ جب میزبان ان سے مستقل طور پر درخواست کرتے تھے اور وہ مجھ سے اجازت مانگتے تھے تو مصالح پر ںظر کر کے کسی کو اجازت مل جاتی تھی اور کسی کو نہیں ـ اس معمول میں بہت سی مصلحتیں ہیں ـ میں کسی کو اپنا طفیلی بنانا نہیں چاہتا ـ میزبان کی اجازت سے تو اس لئے کہ اس سے مہمان کی ذلت ہوتی ہے اور بلا اجازت اس لئے کہ اس سے دوسرے کو گرانی اور خود کو ذلت ہوتی ہے اور کسی کو گراں بار کرنا اور خود ذلیل ہونا دونوں باتیں نا جائز ہیں ـ لوگوں نے دعوت کے معاملہ میں بہت گڑ بؑڑ کر رکھی ہے ـ ایک صاحب اچھے خاصے نیک و بزرگ آدمی تھے ـ ان کا دستور تھا کہ جب کوئی دعوت کرتا تو قبول فرما لیتے اور گھر سے جب روانہ ہوتے تو راستہ میں جو شناسا بھی ملتا تھا ـ اس سے بلا تکلف فرماتے تھے کہ بھائی دعوت ہے چلو ـ غرض دعوت ہوتی ایک کی اور جمع ہو جاتے دس بیس ـ میزبان اس ہجوم کو دیکھ کر بہت گھبراتا تھا ـ اور فوری انتظام یہ کرتا تھا کہ بازار سے پوری کچوری وغیرہ لا کر ان ناخواندہ مہمانوں کی مصیبت ٹالتا تھا ـ اس پر لطف یہ تھا کہ میزبان کی تو گرہ کھلتی تھی اور مرید و معتقد یہ اڑاتے تھے کہ پیر صاحب بڑی برکت والے ہیں کہ ایک آدمی کا کھانا دس بیس کو