ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
مدعی شرافت اور غریب عوام 39 ـ فرمایا آج کل جو لوگ شرافت کے مدعی ہیں وہ علی العموم غریب اقوام کی تحقیر کرتے ہیں اور ادھر ان غریب اقوام کو یہ خبط ہوا ہے کہ وہ اپنی حد سے آ گے بڑھنا چاہتے ہیں ـ میرے نزدیک دونوں فریق تکبر و خود بینی میں گرفتار ہیں ـ کیونکہ مدعیان شرافت تو کھلم کھلا تحقیر کرتے ہی ہیں اور دوسروں کی تحقیر ظاہر ہے کہ عین تکبر ہے اور غریب اقوام اپنی برادری کو ذلیل سمجھتے ہیں ـ اسی واسطے اس سے جدا ہو کر دوسری برادریوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں ـ اور یہ بھی تکبر ہی ہوا کیونکہ اپنے بھائیوں کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ بعض نصوص سے تو تمام انسانوں میں مساوات معلوم ہوتی ہے اور بعض نصوص سے تفاضل اور مراتب کی کمی بیشی مفہوم ہوتی ہے ـ میں نے اس کے متعلق ایک مختصر مگر جامع مضنون ابھی کانپور میں لکھا تھا ـ اس مضمون سے معلوم ہو جائے گا کہ ان دونوں قسم کے نصوص میں کوئی تعارض نہیں ـ اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مساوات کا کیا محل ہے اور تفاضل کا کیا اور مساوات و تفاضل کی حدود کیا ہیں - (احقر اسعداللہ عرض کرتا ہے کہ یہ مضمون کانپور کے رسالہ الادب کانپور بابت ماہ رمضان 1357ص 34،33 پر شائع ہو چکا ہے ـ اور غالبا النور میں بھی بسلسلہ امداد الفتاوی شائع ہو گا 1 ؎ میں یہاں تتمیما للفائدہ اسکا خلاصہ یہاں بھی لکھتا ہوں ـ حضرت سے سوال کیا گیا کہ بعض قومیں دوسری قوموں کی تحقیر کرتی ہیں اور بعض قومیں بلا دلیل اپنے کو دوسری قوموں میں داخل کرتی ہیں ـ یہ دونوں فعل شرعا کیسے ہیں ـ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں فعل شرعا قبیح ہیں ـ پہلا تفریط ہے دوسرا افراط ـ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نصوص شرعیہ کی اس باب میں دو قسمیں ہیں ایک مثبت مساوات ایک مثبت تفاضل اور چونکہ نصوص میں تعارض نا ممکن ہے اس لئے ہر ایک کا محل جدا قرار دیا جائے گا ـ پس نصوص مساوات تو آخرت کے متعلق ہیں یعنی نجات کے لئے ایمان و عمل صالح کے مداد ہونے میں اسلامی حقوق میں اور دینی کمال حاصل کرنے کے بعد تقدم میں سب برابر ہیں ـ چنانچہ مدعیان شرافت بھی سب قوموں کے پیچھے نماز