ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
تعطیلات کے زمانہ میں ایسے مہمان جمع ہو گئے تھے ـ جن میں اکثریت طلبہ کی تھی ـ میں نے حافظ اعجاز احمد سے جو مہمانوں کو بقیمت کھانا کھلاتے ہیں کہہ دیا تھا کہ ہر طالب علم سے علیحدہ علیحدہ پوچھو کہ کتنا قیام کرنا چاہتے ہو اور تمہارے پاس دام کافی ہیں یا نہیں ـ جس کے پاس خرچ نہ ہو اس کو میرے حساب میں برابر کھلاتے رہو دام میں دوں گا کیونکہ دام دینا آسان ہے انتظام مشکل ہے اتفاقا اسی زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب تیتروں سے واپسی میں تھانہ بھون آئے ـ انہوں نے طلبہ کے مجمع سے جو کہ عموما ان کے شاگرد تھے فرمایا کہ تم لوگ کیسے لاپرواہ ہو کہ مولانا پر اپنے کھانے کا بار ڈالتے ہو ـ کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع مجھ کو بھی ہو گئی ـ میں نے مولوی صاحب سے کہا آپ جانتے ہیں کہ میں عرف اور رسم و رواج کا پابند نہیں مجھ کو تنگی ہوتی میں خود انکار کر دیتا ہوں اللہ تعالی نے وسعت دی ہے معمولی خدمت کر سکتا ہو ـ اور طلبہ تو بجائے میری اولاد کے ہیں ان کے حقوق تو اور زائد ہیں آپ کچھ نہ فرمائیں ان کو آزادی سے رہنے دیں ـ شاگرد اولاد کی طرح ہوتے ہیں 61 ـ فرمایا مجھ کو شاگردوں سے جتنی محبت ہے ـ مریدین اور معتقدین سے اتنی نہیں ـ شاگرد تو اولاد کی طرح ہوتے ہیں ـ شاگردی اور استاذی کا تعلق نہایت مستحکم و پائیدار ہوتا ہے اور عقیدت کا تعلق اکثر نا قابل اعتبار ـ رادت کا تعلق ادنی شبہ سے انسان قطع کر دیتا ہے لیکن شاگردی کا تعلق قطع نہیں کیا جاتا ـ احکام میں اکابر کی موافقت مطلوب ہے انتظام میں نہیں 62 ـ فرمایا مہمانوں کے متعلق ہمارے اکابر کا یہی معلول تھا کہ عموما ان کے کھانے کا خود جو انتظام فرماتے تھے دام وغیرہ دینا ان کا معمول نہ تھا ـ ہاں شاذ و نادر کبھی ایسا بھی ہوا ہے اور میری عادت انتظام کی مصالح سے معمولی اکابر کے خلاف ہے گو کھینچ تان کر اپنی اس عادت کو معمول اکابر کے موافق کرنا ممکن ہے کہ وہ بھی تو کبھی دام دے دیا کرتے تھے مگر یہ موافقت کا دعوی صحیح نہیں کیونکہ یہ موافقت یہ ہوتی کہ میں بھی اکثر تو کھانے کا انتظام کیا کرتا اور گاہے گاہے بہ