ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
تیسرے درجے میں سفر 200 ـ فرمایا بھائی 2 ؎ نے مجھ کو مشورہ دیا تھا کہ سیکنڈ میں سفر کیا کرو اس میں آرام ملتا ہے اور وہ خود بھی اس میں سفر کیا کرتے تھے ـ اور میں کم سے کم درجہ یعنی تیسرے درجہ میں سفر کرتا ہوں مگر وہ جب پنشن لے کر آئے تو خود بھی تیسرے درجہ میں سفر کرنے لگے ـ ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ اس میں تو آرام نہ ملتا ہو گا کہنے لگے کہ راحت اسی میں زیادہ ہے اس کی وجہ میں یہ کہا کرتا ہوں کہ تیسرے درجہ میں تو ہو لوگ زیادہ ہوتے ہیں جو ہماری رعایت کرتے ہیں اور بڑے درجوں میں وہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں جن کی رعایت ہم کو کرنا پڑتی ہے ـ دوسرے یہاں آزادی ہوتی ہے جیسے چاہو لیٹو بیٹھو اور وہ بھی آزاد کہ جس طرح چاہیں رہیں ـ بڑے درجوں میں تو اکثر فرعون بنے بیٹھے رہتے ہیں اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک دفعہ راندیر سے آتے ہوے وہاں کے لوگوں نے سیکند کا ٹکٹ لے دیا ـ جب پہنچانے والے سب لوگ اتر گئے تو میں نے ایک رفیق سفر کو تو وہاں بھیج دیا اور خود تیسرے میں بیٹھا وہ صاحب کہتے تھے کہ مجھے بڑی ضیق ہوئی کہ بالکل تنہا سفر کر رہا تھا اور نا جنس کی معیت بھی حکما تنہائی ہی ہے ـ بلکہ اس سے بھی زیادہ موحش ـ اسی میں فرمایا بڑے بڑے لوگ نواب وغیرہ صاحبوں نے بھی مجھ کو جب بلایا ہے تو میں تیسرے ہی درجہ میں گیا ہوں کہ پرایا مال کیا حرام کا ہے کہ اسکو ضائع کروں ـ چنانچہ نواب صاحب ڈھاکہ کہ کو وہاں پہنچ کر جب اسکی اطلاع دی کہ آپ کی رقم ابھی بچی ہوئی ہے تو ان کو بڑا تعجب ہوا ـ میں نے حساب کی اطلاع کر دی ـ پھر جب میں واپس آ گیا تو اس میں بیس روپیہ بچ گئے تھے میں نے ان کو اس کی بھی اطلاع کر دی کہ اس قدر رقم بچ گئی ہے مگر اوروں کے لئے تو یہ معمول رہا کہ ان کو تو واپس کر دیتا ہوں لیکن اس میں نواب صاحب کی اہانت ہوتی تھی ـ اس لئے ان کو لکھ دیا کہ مسجد کے وضو خانہ میں سائبان کی ضرورت تھی آپ کی طرف سے سائبان میں یہ بیس روپے لگا دئیے اور مجھے یہ خشک زہد اچھا 1؎ جمعہ 20 رجب کو احقر حاضر مجلس نہ تھا 12 ج 2؎ مولوی شبیر علی صاحب کے والد ماجد جناب منشی محمد اکبر علی صاحب مرحوم 12 ج