ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
جاجب عود فرما کر بیان فرمایا کہ الحاصل حضرت خضرؑ دوسری شریعت کے پیرو تھے اور جس شریعت کے حضرت خضرؑ پیرو تھے منجملہ اس کے دیگر احکام کے یہ حکم بھی احتمالا معلوم ہوتا ہے کہ الہام حجت قطعیہ اور واجب العمل ہے اور اس احتمال پر قتل غلام اور خرق سفینہ پر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت خضرؑ کو ایسا کرنے کا الہام ہوا جو انکی شریعت میں برہان قاطع تھا ـ اور دوسری نصوص عامہ قطعیہ الہام کی قطعیت کی وجہ سے ان جزئیات خاصہ کے حق میں منسوخ ہو گئی ہوں کیونکہ ایک قطعی دوسرے قطعی کے لئے ناسخ ہو سکتا ہے ـ اور اگر علی سبیل التنزل الہام ان کے یہاں حجت قطعیہ نہ ہو بلکہ دلیل ظنی ہو تب بھی گنجائش ہے کیونکہ ممکن ہے ان کے یہاں بھی قاعدہ ہو کہ عام قطعی کی تخصیص مطلقا دلیل ظنی سے جائز ہے خواہ وہ اس سے پہلے کسی قطعی سے مخصوص ہو یا نہ ہو ـ اور وہ شرط نہ ہو جیسے ہمارے یہاں ہے کہ اول ایک بار کسی سے قطعی سے تخصیص ہو جاوے اس کے بعد پھر دلیل ظنی خبر واحد یا قیاس سے تخصیصا جائز ہوتی ہے اور الہام اس درجہ کی بھی دلیل نہیں ہے ـ اس شریعت میں یہ نہ ہو اور اس بنادء پر الہام سے دوسرے عمومات کی تخصیص ہو جاتی ہو ـ اور چونکہ یہ جواب بدرجہ منع ہے اس لئے ان مقدمات پر دلیل لانے کی ضرورت نہیں واللہ اعلم بالصواب ـ میں نے اس جواب کو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا تھا مولانا نے بہت پسند فرمایا تھا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ بعضے بزرگوں نے حضرت خضرؑ کے ساتھ زیادہ شغف کا برتاؤ نہیں کیا ـ غالبا حضرت ابراہیم بن ادہم کا واقعہ ہے ان سے حضرت خضرؑ نے ملاقات کی ـ پھر پوچھا مجھے پہچانا ـ انہوں نے فرمایا مجھے پہچاننے کی ضرورت ہی کیا ہے ـ مجھے اللہ تعالی کی مشغولی سے اتنی فرصت ہی نہیں ـ حضرت خضرؑ نے خود ہی بتا دیا کہ میں خضر ہوں ـ انہوں نے فرمایا بہتر مگر مجھے کیا ـ حضرت خضرؑ نے فرمایا لوگ تو میری ملاقات کی تمنا کرتے ہیں ـ انہوں نے فرمایا جی ہاں کرتے ہوں گے ـ حضرت خضرؑ نے فرمایا لوگ مجھ سے دعا کرایا کرتے ہیں ـ آپ بھی دعا کرائیے ـ انہوں نے فرمایا ان کا دربار عام ہے ہر شخص کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے ـ کسی واسطہ پر موقوف نہیں جو کچھ مجھے مانگنا ہے میں خود ہی مانگ لوں گا ـ حضرت خضرؑ نے