ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
اس لئے حضرت موسی نے اعتراض کیا اور حکمت و مصلحت معلوم ہونے کے بعد خلاف شرع نہ تھے چونکہ حضرت خضر اس حکمت کو جانتے تھے اس لئے انہوں نے ارتکاب کیا ـ اس اجمال کی تفصیل جو طلبہ کے لئے طرب انگیز و وجد آور ہے میری سمجھ میں یہ آئی ہے کہ حضرت موسیؑ کی شریعت حضرت خضرؑ پر حجت نہ تھی ـ کیونکہ حضرت موسیؑ کی بعثت عام نہ تھی بلکہ ایک خاص جماعت یعنی بنی اسرائیل کے لئے تھی دیکھئے حضرت خضرؑ نے آپ سے بوقت ملاقات دریافت کیا تھا کہ آپ کون ہیں آپ نے فرمایا تھا موسی حضرت خضر نے اس پر کہا تھا وہ موسی جو بنی اسرائیل کی جانب مبعوث ہوئے ہیں ـ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ـ پھر جملہ معترضہ کے طور پر فرمایا بعثت عام صرف ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تھی اور کسی دوسرے نبی و رسول کی بعثت عام نہ تھی ـ مگر اس پر ایک مشہور اشکال ہے کہ حضرت نوحؑ کی بعثت اگر عام نہ تھی تو ان کے نہ ماننے سے تمام عالم کیوں غرق ہوا ـ لہذا حضورؐ ہی کے ساتھ بعثت عامہ کی تخصیص نہیں رہی ـ علماء نے اس کے مختلف جوابات دئے ہیں ـ ایک جواب جو میری سمجھ میں آیا ہے اور کہیں نظر سے نہیں گزرا بیان کرتا ہوں ـ احکام کی دو قسمیں ہیں ـ ایک اصول جیسے توحید ، رسالت ، حشر ونشر ، دوزخ و جنت وغیرہ ـ دوسرے فروع جیسے وضو ، غسل ، نماز ، روزہ ، حج اور انکی جزئی خصوصیات وغیرہ اصول میں تو ہر نبی کا اتباع عام طور پر فرض ہے ـ کوئی فرد بشر اس سے مستثنی نہیں ہوتا ـ جو شخص اصول کو نہ مانے گا وہ کافر ہو گا ـ دنیا میں بھی سزا کا مستحق اور آخرت میں بھی ـ باقی فروع میں و جوب اتباع یہ بجز سیدالانبیاء محمد مصطفی ؐ کے کسی نبی کے لئے عام نہیں ـ اس تحقیق کے بعد کوئی اشکال نہیں رہا ـ کیونکہ حضرت نوحؑ کی دعوت اور اسی طرح تمام انبیا علہیماالسلام کی دعوت اصول میں عام تھی چونکہ توحید ورسالت کا سب نے انکار کیا اس لئے اس انکار کی وجہ سے سب غرق کئے گئے ـ " حاصل ھذا لجواب ان بعثۃ نبیا صلی اللہ علیہ وسلم عامۃ من جمیع الوجوہ وبعثۃ سائر الرسل والانبیاء عامۃ من وجہ وخاصۃ من وجہ فانظروا ایھا الطلاب ، ما احسن ھذا لجواب ما راینا ما یقا ربہ جی رسالۃ ،، (ولا کتاب 12) اس کے بعد پھر اصل قصہ کی