ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
حضرت خضر کے پاس بھیجنا وہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ حضرت خضر کے علوم افضل ہیں اور حضرت موسیؑ کو انکی احتیاج ہے بلکہ اس بھیجنے میں حکمت موسیؑ کی ایک خاص اصلاح ہے ـ یعنی اپنی شان بلند کے مطابق الفاظ کی بھی رعایت کر لیا کریں اور عبارت کے آداب بھی ملحوظ رکھا کریں ـ واقعہ یہ ہے کہ کسی مجمع میں حضرت موسیؑ نے کچھ وعظ بیان فرمایا تھا ـ اس مجمع میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ عالم کون ہے آپ نے فرمایا میں ہوں ـ اس جواب کے عنوان کو حق تعالی نے پسند نہیں فرمایا کہ اپنے آپ کو علی الاطلاق سب سے زیادہ عالم کہا جائے بلکہ اس قید کے ساتھ جواب دینا چاہئے تھا ـ کہ علوم مقصودہ میں سب سے اعلم ہوں گو مراد یہی تھی ـ مگر اس قید کا لفظوں میں بھی ظاہر کرنا چاہئے تھا اسی پر ارشاد ہوا کہ ہمارے ایک بندہ خضر ہیں ہم نے ان کو ایسے علوم دیئے ہیں کہ آپ نہیں جانتے ـ بس اب آپ جا کر اس بندہ یعنی حضرت خضر سے ملاقات کیجئے تاکہ مشاہدہ ہو جائے کہ ان کو وہ علوم دیئے گئے ہیں جو آپ کو نہیں دیئے گئے ـ گو ان کے علوم درجہ و مرتبہ میں آپ کے علوم سے بہت کم ہیں ـ بہر حال حضرت موسیؑ کو الفاظ کا ادب و رعایت سکھانے کے لئے سفر کا حکم ہوا تھا ـ نہ کہ علوم تکوینیہ کی فضیلت کی وجہ سے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ نا واقف لوگ مجھ پر عتراض کرتے ہیں کہ بعضے آنے والوں کے لئے یہ تجویذ کیا جاتا ہے کہ مجلس میں خاموش بیٹھے رہو ـ سوالات کا تم کو کچھ حق نہ ہو گا مگر دیکھ لیجئے کہ حضرت موسیؑ سے حضرت خضر نے جو ان سے درجہ میں بہت کم تھے یہی شرط تھی " فلا تسئلنی الخ ،، اور انہوں نے بخوشی اس کو منظور بھی فرمایا لیا تھا اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر مصلح اصلاح کے لئے مناسب اور جائز شرط مقرر کرے تو کچھ حرج نہیں اور طالب کے لئے ان کا اتباع ضروری ہے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ حضرت موسیؑ و حضرت خضرؑ کے قصہ میں قتل غلام و خرق سفینہ کے متعلق ایک طالب علمانہ اشکال ہے کہ اگر یہ امور جائز تھے تو حضرت موسیؑ نے اعتراض کیوں کیا اور اگر نا جائز تھے تو حضرت خضرؑ نے ان کا ارتکاب کیوں کیا خصوص جبکہ پیغبر وقت حضرت موسیؑ ان پر نکیر بھی کر رہے تھے ـ اس اشکال کا اجمالی جواب یہ ہے کہ یہ افعال قواعد کی رو سے بظاہر خلاف شرع تھے