ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
نہ کرتے ہو تو پاگل سمجھا جاوے ـ باقی ان مجاذیب کا اتباع کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ـ کیونکہ جب وہ مکلف ہی نہیں تو دینی حیثیت سے ان کے قول و فعل کا کیا اعتبار ـ پھر اسی سلسلہ میں فرمای دیو بند میں ایک مجذوب تھے شمس الدین جو فارسی بولتے تھے ـ ہم لوگ اپنے بزرگوں کے فرمانے سے جانتے تھے کہ یہ تکوینی طور پر غیر مسلمین کے حامی ہیں ـ اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں جیسے ملائکہ کفار کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو درندوں سانپوں اور بچھوؤں سے بچاتے ہیں ـ ایسے ہی بعض مجذوبوں کے سپرد یہ خدمت کر دی جاتی ہے کہ اہل باطل کی حمایت کریں ـ بہر حال ہم لوگ طالب علمی کے زمانہ میں ان مجذوب صاحب سے کہا کرتے تھے کہ دعا کیجئے کہ یہ غیر مسلمین مغلوب ہو جائیں تو وہ جواب میں صرف یہ کہا کرتے تھے کہ خدا خیر کند خدا خیر کند جب ان مجذوب کا انتقال ہوا تو میں افسوس کرنے لگا تو ایک بزرگ نے فرمایا کہ آج ہمارا دشمن مر گیا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا تکوینی خدمات جن لوگوں کے سپرد کی جاتی ہیں عموما اعلی درجہ کے نہیں ہوتے جیسے ملازم بڑے یا چھوٹے ایسے ہی کا حال ہے ـ اور سالکین حضرات انبیاء علہیم السلام کے جانشین ہیں قرب و فضیلت کا اعلی درجہ رکھتے ہیں البتہ اگر کوئی جامع ہو اسکا ذکر نہیں اس فرق کو دوسری مثال میں یوں سمجھئے کہ مجذوب تو حضرت خضر عالیہ السلام کے مانند ہوتا ہے اور سالک حضرت موسی علیہ السلام کی طرح ـ اور ظاہر ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کا درجہ حضرت خضر علیہ السلام سے بہت زائد ہے خواہ حضرت خضر ولی ہوں جیسے کہ بعض کا خیال ہے یا نبی ہوں جیسے لوگ کہتے ہیں مگر موسی علیہ السلام اولوالعزم میں سے ہیں ـ اس لئے قرب و فضیلت میں رائد ہیں ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ بعض جاہل صوفی کہا کرتے ہیں کہ علم طریعت علم شریعت سے بڑھا ہوا ہے ـ چنانچہ حضرت موسیؑ کو جو کہ عالم شریعت تھے حضرت خضر کو حضرت موسیؑ کی خدمت میں بھیجا جاتا کہ عالم تھے تحصیل علم کے لئے بھیجا گیا ـ اسکا عکس نہیں کیا گیا کہ حضرت خضر کو حضرت موسیؑ کی خدمت میں بھیجا جاتا مگر یہ دعوی اور استدلال دونوں بالکل غلط ہیں ـ حضرت خضرؑ کے یہ علوم طریقت نہیں ہیں بلکہ تکوینیہ ہیں جو علوم شریعت کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کے ہیں اور موسیؑ طریقت میں بھی ان سے بڑھے ہوئے ہیں باقی حضرت موسیؑ کو