ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
ممانعت میں غلو کیا ہے اسی طرح بعض جاہل صوفیوں نے جانب جواب میں افراط سے کام لیا ہے ـ وہ مردہ کو مخاطب کر کے اس سے حاجتیں مانگتے ہیں اور ایک درجہ بین بین ہے کہ مردہ سے حاجت تو نہ مانگے مگر اس سے یہ کہے کہ تم ہمارے واسطے دعا کرو سو اسکا بھی کہیں ثبوت نہیں ـ اور میں اسکو ناجائز تو نہیں کہتا لیکن چونکہ ثبوت نہیں ہے اس لئے احتیاطا اس سے احتراز ہی چاہئے ـ ایک مرتبہ اس کے متعلق مولوی حکیم محمد اسمعیل صاحب گنگوہی سے میری تحریری گفتگو بھی ہوئی ہے ـ میں نے ایک مضمون میں یہ لکھا تھا کہ اس قسم کے توسل کا نافع ہونا اس وقت ثابت ہو سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ مردے دعا کرتے ہیں مولوی اسمعیل صاحب نے تلاش کر کے ایسی روایات پیش کیں جن میں اموات کا احیاء کے لئے دعا کرنا منقول ہے مگر میں نے جواب میں لکھا کہ احادیث میں صرف اتنا وارد ہے کہ کسی کے ثواب بخشنے پر موتی اس واہب کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ـ تو ان سے ایک خاص موقع پر خاص دعا کا ثبوت ہوا ـ حالانکہ آپ کا دعوی عام ہے کہ جس حاجب کے لئے درخواست کی جائے مردے اس کے لئے دعا کرتے ہیں ـ خاص دلیل سے عام دعوی ثابت نہیں ہو سکتا ہے ـ یعنی احادیث سے صرف اتنا ثابت ہوا کہ فلاں عمل کی وجہ سے وہ فلاں دعا کرتے ہیں ـ یہ نہیں معلوم ہوا کہ جو دعا تم چاہو گے وہ کریں گے ـ لہذا دعوی بلا ثبوت ہی رہا ـ مولوی صاحب اس کی کچھ توجیہہ کرنا چاہتے تھے ـ میں نے لکھ دیا کہ اب میں جواب کی حاجت نہیں سمجھتا ـ کیونکہ آپ عموم دعا کی دلیل نہیں پیش کر سکے ـ اب آپ کو اختیار ہے خواہ رد کیجئے یا خوموش رہئے ـ دونوں کی تحریریں شائع ہو گئی ہیں ان کو دیکھ کر ہر شخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کیا عقیدہ رکھا جائے ـ اسی دوران میں میں نے مولوی صاحب کے صاحبزادہ کو لکھ دیا جو مجھ سے دینی تعلق رکھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں میرا اور تمہارے والد صاحب کا اختلاف ہے ـ کسی ایک صورت پر اتفاق نہیں ہوا ـ اب تم مختار ہو چاہے اپنے والد صاحب کا مسلک اختیار کرو ـ چاہے میری تحقیق اور رائے کو مانو ـ انہوں نے نہایت اچھا جواب لکھا کہ والد صاحب کا اور میرا تعلق دنیوی اور حسی ہے اور آپ سے دینی اور معنوی ہے اور یہ مسئلہ بھی دینی ہے اس لئے میں اس میں آپ کے ساتھ ہوں ـ اور مولوی محمد اسمعیل صاحب سے گو اس مسئلہ میں اختلاف تھا - لیکن ان کو