ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
مجھ سے محبت بہت تھی ـ جب میرے بعض متعلقین حج کو جا رہے تھے اور میں بمبئی ان کو رخصت کرنے گیا تو بمبئی میں ان کے صاحبزادہ ملے ـ کہا کہ والد صاحب کا خط آیا ہے اس میں مجھے بتاکید لکھا ہے کہ میں آسائش کا مکان لے کر اس میں حضرت کو ٹھہراؤں اور ہر طرح کی خدمت کا اہتمام رکھوں ـ اگر حضرت نے قیام وطعام منظور نہ فرمایا تو وہ مجھ پر سخت ناراض ہوں گے ـ چنانچہ انہوں نے تین سو روپیہ ماہانہ کے کرایہ کا مکان تجویذ کیا ـ اور میں نے اسی میں قیام کیا ـ یہ صاحبزادہ اپنے والد کے بہت فرمانبردار و مطیع تھے ـ اپنی ساری آمدنی ان کے سپرد کر دیتے تھے اور خود اگر کسی شے کی ضرورت ہوتی تو ان سے کہہ کر خرچ لے لیتے تھے ـ ان کی سکونت کا ایک مکان بمبئی میں تھا ـ ان کے والد نے پڑوس کی بے پردگی کی وجہ سے مکان کی ایک کھڑکی بند کر دی تھی ـ والد صاحب بمبئی سے وطن چلے آئے اور وہ پڑوسی بھی کہیں چلا گیا اس وقت ان سے کہا گیا ـ کہ اب اس کھڑکی کو کھول دو ہوا آئے گی ـ انہوں نے کہا توبہ توبہ میری کیا مجال کہ جس کھڑکی کو والد صاحب بند فرما گئے ہوں اس کو میں کھول دوں ـ دیکھئے باوجودیکہ والد صاحب کے اس قدر اطاعت گزار تھے لیکن مسئلہ توسل میں ان کا ساتھ نہیں دیا ـ اس کے بعد پھر اصل مضمون کی جانب عود فرمایا کہ توسل بالاعمال کو تو ابن تیمیہؒ بھی جائز کہتے ہیں ـ اگر میں ان کے زمانہ میں ہوتا یا وہ میرے زمانہ میں ہوتے تو میں نہایت ادب سے عرض کرتا کہ حضرت اس توسل بالاعمال کی حقیقت ہے کیا ـ میری سمجھ میں تو اس کی یہ حقیقت آئی ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اے اللہ فلاں عمل کے طفیل و صدقہ میں یہ کام کر دے تو اسکے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اے اللہ یہ عمل آپ کے نزدیک محبوب ہے اور آپ کا وعدہ ہے کہ آپ کے عمل محبوب سے جس کو تلبس ہو اس پر خاص رحمت ہوتی ہے اور اس عمل کے ساتھ ہم کو بھی کسب صدور کا تلبس ہے ـ لہذا اس تلبس پر جو وعدہ رحمت کا ہے ہم آپ سے اس رحمت کو طلب کرتے ہیں ـ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر اگر کوئی توسل بالاعیان بھی کرے تو توسل بالاعیان اور توسل بالاعمال میں کیا فرق ہے پھر خواہ وہ اعیان احیا ہوں ، یا اموات کیونکہ اب اس توسل بالاعیان کا حاصل یہ ہو گا کہ اے اللہ یہ بزرگ زندہ یا مردہ آپ کے محبوب ہیں اور آپ کا وعدہ ہے کہ آپ کے محبوب سے جس کو تلبس ہو اس پر رحمت ہوتی ہے اور ہم کو ان