ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
سے ادنی مسلمان پر بھی کسی قسم کا بار ڈالنا پسند نہیں کرتا حتی کہ اپنے ذاتی تنخواہ دار ملازموں سے بھی کہہ رکھا ہے کہ اگر تم کو کوئی ایسا کام بتلایا جائے جس کا تم سے بسہولت تحمل نہ ہو اور گرانی ہوت تو فورا مجھے اطلاع کر دینا ـ میں دوسرا انتظام کر لوں گا ـ چنانچہ ملازمین بعض دفعہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکتا میں بخوشی دوسرا انتظام کر لیتا ہوں ـ میں ایسی تو رعایتیں کرتا ہوں لیکن لوگ مجھ کو پھر بھی سخت کہتے ہیں ـ اس کے بعد پھر ماقبل کی جانب عود فرما کر بیان فرمایا کہ پھر حضرت سے سوال نہیں کیا ـ چند روز کے بعد ایک روز میں خانقاہ سے مکان جا رہا تھا اور حوض والی مسجد کے قریب پلکھن کے نیچے پہنچا تھا تو خود بخود حضرت کی برکت اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مطلوب سمجھ میں آ گیا ـ الحمدللہ ایسے مواقع خوب یاد ہیں جہاں پر اس قسم کی علمی تعمتیں عطا ہوئی ہیں ـ اس کے بعد اصل مسئلہ کی جانب عود فرمایا کہ اول میں ابن تیمیہ کا مذہب بیان کئے دیتا ہوں پھر توسل کی حقیقت عرض کر دوں گا ـ ابن تیمیہ ؒ نے لکھا ہے کہ توسل اعمال صالحہ سے تو مطلقا جائز ہے اور اعیان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ زندہ ہوں تو بایں معنی جائز ہے کہ ان سے دعا کی دوخواست کی جاتی ہے اور اموات سے نا جائز کیونکہ وہاں یہ معنی متحقق نہیں ـ اور اس پر احادیث سے استدلال کیا ہے ـ چنانچہ توسل بالاعمال کے جواز پر بخاری کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ تین آدمی ایک غار میں بند ہو گئے تھے اور تینوں میں سے ہر ایک نے اپنے ایک ایک عمل سے توسل کیا یعنی اس کا واسطہ دے کر نجات کی دعا کی ـ اور وہ دعا قبول ہو گئی ـ پھر توسل بالاعیان کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے استسقاء میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے تو توسل کیا جس کے وہی معنی ہیں کہ ان سے دعا کی درخواست کی ـ اور حضورؐ سے توسل نہیں کیا ـ اگر غیر احیاء سے توسل جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یقینا حضورؐ ہی کے توسل کو اختیار فرماتے ـ جمہور علماء نے اس اخیر جزو کے متعلق بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اس لئے توسل کیا کہ امت کو معلوم ہو جائے کہ حضورؐ کے ساتھ تو جائز ہے ہی غیر نبی کے ساتھ بھی جائز ہے نہ یہ کہ موتی کے ساتھ توسل نا جائز ہے ـ غرض ابن تیمیہ موتی کے ساتھ توسل کو مطلقا نا جائز کہتے ہیں اور جس طرح ابن تیمیہ ؒ نے اس کی