ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
بن سکتا ہے کیونکہ وسلیہ کے معنی ہیں " ما یتقرب بہ الی اللہ تعالی ،، یعنی ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہو اور چونکہ شیخ سے بھی اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی وسیلہ کے عموم میں داخل کیا جا سکتا ہے ـ اور کہا جا سکتا ہے کہ اسباب قرب میں سے ایک شیخ بھی ہے باقی بالتخصیص شیخ کے ساتھ تفسیر کرنا صحیح نہیں ـ اور بعض نے تو اس سے بھی غضب کیا ـ کہا کہ وسیلہ سے آیت میں بیعت شیخ مراد ہے یہ تو بالکل تحریف ہی ہے ـ ہاں وسیلہ کے عموم میں شیخ کی تعلیم تلقین اور اصلاح داخل ہو سکتی ہے باقی بیعت وہ صرف اس تعلیم و تلقین کی اتباع کا معاہدہ ہے خود وہ اسباب قرب سے نہیں ـ حاصل یہ ہے کہ وسیلہ کے حاصل معنی حق تعالی سے تقرب حاصل کرنے کے ہیں باقی اس توسل کی ایک خاص صورت ہے یعنی یہ دعا کرنا کہ یا اللہ فلاں بزرگ کے وسیلہ سے ہماری فلاں مراد پوری کر ـ اس کو جمہور جائز کہتے ہیں اور ابن تیمیہ ؒ منع کرتے ہیں اور چونکہ اسکی ممانعت کی دلیل نہیں ـ چنانچہ عنقریب اسکی تحقیق آتی ہے اس لئے اس توسل کو منع کرتے ہیں ـ جو استعانت و استغاثہ تک پہنچ جائے کیونکہ اس سے شرک لازم آتا ہے اور ایسے توسل کو سب علماء منع کرتے ہیں اب میں توسل کی اس خاص صورت کی حقیقت بیان کرتا ہوں اسکے متعلق مجھ کو بہت دنوں تردد رہا کہ ان الفاظ کے معنے کیا ہیں ـ ایک دفعہ حضرت مولانا گنگوہیؒ سے دریافت کیا کہ حضرت یہ جو کہتے ہیں کہ اے اللہ تعالی ہمارا یہ کام فلاں بزرگ کے واسطے سے کر دیجئے اس کی کیا حقیقت ہے اور واسطہ کے کیا معنی ـ اخیر عمر میں حضرت کی ظاہری بینائی نہیں رہی تھی اور آواز سے پہچانا نہیں اس لئے دریافت فرمایا کہ کون دریافت کرتا ہے میں نے عرض کیا اشرف علی ـ حضرت کو میرا نام سن کر اپنے حسن ظن کی وجہ سے تعجب ہوا فرمایا تم پوچھتے ہو ؟ میں خاموش ہو گیا اور پھر دریافت نہیں کیا کیونکہ میں نے قرائن سے سمجھ لیا کہ حضرت کو اس وقت جواب میں نشاط نہیں ـ لہذا دوبارہ سوال کر کے بار ڈالنا ادب کے خلاف ہے ـ پھر اسی سلسلہ میں جملہ معترضہ کے طور پر فرمایا کہ تحصیل درسیات میں بھی میرا یہی معمول رہا ہے کہ استاد کو جب بشاش نہیں دیکھتا تھا تو دریافت نہیں کرتا تھا (ماہرین فن تعلیم نے بھی طلبہ کے لئے یہی تجویذ کیا ہے) اور دوسرے وقت پر اٹھا رکھتا تھا ـ استاد تو استاد ہے ـ اسکا بڑا درجہ ہے ـ میرا تو یہ دستور ہے کہ ادنی