معمولی مجدد ہیں۔ معمولی محدث ہیں اور باوجود اس کے وہ اپنی شان میں ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں رکھتے تو آپ کی فلاسفی سمجھے کون؟
اس امامت کو دیکھئے، خلفاء راشدین کے بعد اس کا کیا حشر ہوا۔ یہی نا کہ بدقسمتی سے امت نے اس فریضہ کو فراموش کردیا اور مروان جیسے مکار، عبدالملک جیسے جابر اور یزید جیسے ظالم حکام جو فریب کے زور سے، زر کے زور سے اور تلوار کے زور سے حکومت پر متصرف ہوتے رہے۔ آرام طلب اور غافل رعیت انہیں امام کا لقب دے کر اطاعت کرتی رہی اور امام کو صحیح معنوں میں قائم کرنے کی فرضیت عقائد کی کتابوں میں لکھی رہ گئی اور اس وقت سے لے کر آج تک امام کوئی نہیں ہوا۔
ہم سب اپنے فرض سے غافل رہنے کی وجہ سے گنہگار ہیں۔ مگر جب امام زمان کوئی موجود نہیں تو اس کو نہ پہچاننے کے مجرم نہیں ہیں۔ مرزا قادیانی اس شکل سے امام نہیں بنائے گئے تو آپ انہیں امام الزمان کیونکر فرض کر سکتے ہیں۔
یہ ہیں میرے وہ تمام خیالات جو آپ کا رسالہ ’’ہمارے عقائد اور ہمارا کام‘‘ دیکھ کر میرے دل میںپیداہوئے۔ انہیں پیش کرنے کی جرأت کرتاہوں اور آخر میں گزارش کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ آپ اپنے عقائد اور اپنے کام کو اگر اس رنگ میں پیش کرتے کہ ایک جدید مسلک کے پیرو ہو کر آپ نے کیا پایا اور اسے کہاں تک پھیلایا تو کسی کو اس کی نسبت اظہار خیال کی ضرورت نہ تھی۔ ہر شخص کو کوئی مسلک پیدا کرنے کا یا اختیار کرنے کا اور اس کو رواج دینے کاحق حاصل ہے۔ ہمارے دل میں خیالات کا طوفان اس لئے اٹھتا ہے کہ آپ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں اور باعث ترک ملاقات جو ہم سمجھتے ہیں۔ اسے مانتے نہیں اور جو خود بتاتے ہیں، سمجھاتے نہیں۔ یعنی آپ اپنے تئیں مسلمان کہہ کر ہم سے معانقہ کرتے ہیں اور اپنی رفتار قیامت کو جاری رکھتے ہوئے بہت جلد آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور ہم کہتے رہ جاتے ہیں کہ:
دیدار مے نمائی و پرہیز مے کنی
بازار خویش و آتش ماتیز مے کنی
اس کا جواب اگر عنایت ہوا تو نہایت شوق سے دیکھوں گا اور عجب نہیں جو دونوں یک جا شائع ہوں یا انتظار کے بعد یہی تحریر پریس میں جائے۔ فقط!