علاوہ ازیں اوّل ذکر ہوچکا ہے کہ مرزا نے کہا یہ کہ خدا نے مجھ کو کرشن بھی کہا ہے اور کرشن ہندوؤں کا گرو اورپیر ہوتا ہے اور کافر ہوتا ہے۔ کیا آدمی ایک حالت میں ہم کافر ہم مومن ہم نبی ہم کرشن ہوسکتاہے۔
علمائے زمانہ یہ فتویٰ بموجب احکام قرآن مجیدصاف طورپر بیان کرتے ہیں۔ اس لئے اگر کوئی وکیل گمراہ شیطان کے پیچھے چلنے والا انفساخ نکاح مرزائی و مسلمہ کے متعلق فریقین کو اپنے فوائد دنیاوی متاع قلیل زودفانی کے لئے کج راستہ بتائے۔ یا کوئی حاکم یہ عذر اٹھائے کہ مرزائیوں کے کفر کے بارہ میں ہم علماء کا فتویٰ نہیں مانتے۔ کیونکہ یہ حسدی لوگ ہیں۔ خواہ مخواہ بلا وجہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر کہتاہے۔
جواب یہ کہ ہاں بلاشک بعض چودھویںصدی والے علماء حسد،انانیت، خودبینی کی وجہ سے بلا وجہ و دلیل محکم اپنی رائے اور نفسانیت سے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ میںخود ایسے علماء کا فتویٰ نہیں مانتا۔ لیکن اس وقت جمہو ر علمائے زمانہ نے جو مرزائیوں پر کفر او ر مرتد ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ یہ بموجب احکام قرآن شریف صاف طورپر نکال کربیان کیا ہے۔ کیونکہ کفر و اسلام کا قرآن مجید مبارک میں واضح طور پر ذکر ہے۔ جو شخص قرآن کریم کی آیات کے بموجب کافر ہو۔ اس کو کافر نہ کہنا اﷲ تعالیٰ کی تکذیب ہے۔
چنانچہ فرعون کہ اس نے خدائی کادعویٰ کیاتھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں اس کو کافر ذکر کیاہے۔ پس جو شخص اس کو کافر نہ کہے اور نہ سمجھے۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کی تکذیب ہے۔ قطعی کفر ہے اور قبطیاں فرعون کے تابعین کو بھی اس کی متابعت کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے کافر ذکر کیا ہے۔ تو جو شخص قبطیوں کو کافر نہ سمجھے۔ اس میں بھی اﷲ تعالیٰ کی تکذیب ہے۔ قطعی کفر ہے۔ فرعون اور قبطیان کا کفر مرزا اورمرزائیان کے کفر کے لئے علماء کے پاس پختہ دلیل اورنظیر ہے۔ باقی آج کل حکام اوروکیلان کے نزدیک قانونی احکام سے زیادہ تر مرغوب اورمعمول ہیں۔
’’متیٰ نصر اﷲ الا نصراﷲ قریب‘‘
من کیم کہ گویم کہ این کن یا آن کن توبادشاہ ہردوجہانی ، ہرچہ خواہی آن کن۔ لیکن ’’واصبرکما صبر اولیٰ العزم ولاتکن کصاحب الحوت اصبر واذکرعبدنا داؤد‘‘ عمل مے تو انم کرد۔ غیرت را اختیارکن۔ قہر رادرپیش گیر۔مترکان ومخالفت کنان قرآن را دردارین بعذاب شدید مبتلاکن!