سے ہے۔ نہ کہ محمد عربی ﷺ کی رسالت کی رو سے۔
اس نے جو قرآن کی تکذیب کی ہے او ر کہا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کسی نبی پر زمین پر نہیں اترا۔تو اس صورت میں مرزا کا اہل قرآن ہونا اپنے الہامات کی رو سے ہے۔ نہ کہ محمدعربیﷺ کے قرآن کی رو سے۔ کیونکہ ان کے قرآن کو تو جبرائیل علیہ السلام زمین پر اترکر ان کے پاس لایا ہے۔
مرزا نے جو خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ :’’میں نے دیکھا کہ میں خدا ہوں اور یقین کیا کہ خدا ہوں۔ پھر میں نے زمین آسمان بنائے اور انسان بنائے اور ان کے خلق پرقادر تھا۔‘‘تو جب مرزا خود خدا ہوا اورخالق زمین وآسمان ہوا اورخالق انسان ہوا۔ تو مرزائیان یعنی اس کے مریدین خود اس کے بندگان اورمخلوق ہوچکے۔ تو ایسی صورت میں مرزائیوں کا اہل قبلہ و اہل قرآن ہونا اﷲ تعالیٰ رب العٰلمین کے لئے کہاںرہا۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مرزا نے خدائی کادعویٰ کسی بیہوشی کی حالت میں کیاہوگا۔ اس کو قیامت میں گرفت نہ ہوگی۔ چنانچہ حسین بن منصور اور فرید الدین عطاراوسرمد نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔
جواب یہ کہ کفر دو قسم کا ہے۔ ایک کفر عنداﷲ ہے کہ بروز قیامت اس کا نتیجہ معلوم ہونا ہے اور دوسرا کفر عندالشرع ہے کہ اسی دنیا میں اس کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ افراد ثلاثہ عندالشرع کافر تھے۔ اس لئے علماء نے ہر ایک کو اپنے اپنے زمانہ میں قتل کیا ہے۔ کیونکہ شرع ظاہر کو دیکھتی ہے۔
دیگر جواب یہ کہ مراتب دو ہیں ایک مرتبہ ولایت، دوم مرتبہ نبوت و رسالت۔ دلی جب مقام حیرت تجلی ،فعلی، اسماء و صفات میں پہنچے۔ تو ازروئے مرتبہ ولایت بعضوں کے منہ سے ایسی ایسی باتیں نکلتی ہیں۔ تاہم شریعت محمدی اس کو کافر کہتی ہے۔ مرزا نے تو رسالت کا دعویٰ کیا ہے اور رسول احکام آسمانی کی تبلیغ کے لئے بھیجا ہواہوتاہے۔ اس لئے ایسی باتیں اگر وہ کہے تو رسالت سے خارج ہوتاہے۔ حضرت بابا آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کسی نبی یا رسول نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا۔
سبحان اﷲ! جب مرزا نے ہزار بار اپنی جان کو اپنی زبان سے ایمان و اسلام سے نکال کر کفر و شرک قطعی میں داخل کیا ہے۔ تو اس کے تابعان ضائع الایمانان اپنے فوائد و دفع ضر ر کے لئے کس راستہ سے اس کو مسلم ٹھہراتے ہیں۔ کیا ایسے ایسے کفریات بکنے والا آدمی بھی مسلمان ر ہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اورکون سا امر ہے۔ جس کے ساتھ مسلم مرتد ہوتا ہے۔ مرزا کسی حالت میں مسلمان نہیں رہ سکتا۔