ہوئی ہیں۔ طالب مشتاق ان مواقع کو نکال کر ماقبل ومابعد پر نظر کرے تو ساتھ ہی انبیاء علیہ السلام کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی ناکامی اور ان پر خدا کی مار و پھٹکار کا ذکر موجود ہوگا۔
پس قاعدہ نظم و ارتباط قرآن حکیم اسکو مجبور کردے گا کہ وہ تسلیم کرے کہ اس جگہ سنت اﷲ سے مراد پیغمبروں کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی تعذیب و خذلان ہے۔ چنانچہ وہ سب مواضع علی الترتیب تحریر خدمت ہیں۔ فیصلہ ناظرین کے فہم رساپر چھوڑتاہوں۔
(از کتاب شہادت القرآن حصہ اوّل ص۳۳،۳۴،۳۵، مصنفہ مولانا ابراہیم سیالکوٹی)
۱… ’’وان کادو…من رسلنا ولا تجد لستنا تحویلا(بنی اسرائیل :۷۶۔۷۷)‘‘اس میں صاف مذکور ہے کہ کفار مکہ حضور نبی کریم ﷺ کو مکہ شریف سے نکالنا چاہتے تھے۔ اس نے آپ کی تسلی فرمائی کہ اگرآپ کو نکالیں گے تو خود بھی نہ رہیں گے۔ کیونکہ انتقام انبیاء از اعداء ہماری سنت قدیمہ ہے اور یہ کبھی محول نہ ہوگی۔
اس آیت کے ذیل میںتفسیر کبیر میں کہاہے یعنی ’’ان کل قوم اخرجوا نبّیھم سنت اﷲ ان یھلک اﷲ‘‘یعنی خدا کی اس سے یہ مراد ہے کہ جس کسی قوم نے اپنے نبی کو نکالا۔ ان کے متعلق سنت یہی ہے کہ ان کو بس ہلاک ہی کر دیوے۔(دجال قادیانی کے چیلے حضرت مسیح کے رفع اور بن باپ پیدائش پر’’ولن تجلالسنۃ اﷲ تبدیلا (الاحزاب:۶۲)‘‘ چسپاں کر رہے ہیں۔(مؤلف)
۲… (الاحزاب:۶۲)میں ہے:’’لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم…لسنۃ اﷲ تبدیلا‘‘
۳… (سورۃ فاطر پارہ ۲۲ رکوع۱۷)میں ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابوالسعود میں ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کے بارے میں خدا کی سنت ہے کہ مکذبین کو عذاب کرے۔
۴… سورۃ المومن پارہ ۲۴رکوع۱۴میں ہے۔
۵… (سورۃ الفتح پارہ ۲۶ رکوع ۱۱ آیات ۲۳،۲۲)میں ہے:’’ولوقاتلکم الذین… قد خلت من قبل ولن نجد لسنۃ اﷲ تبدیلا‘‘