دے لیں۔ اسے علم منطق میںاستقراء کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ تام اور ناقص۔
۱… تام اسے کہتے ہیں کہ تمام ہم قسم جزئیات پر نظر رکھیں اور ان میں ایک مشترک نظام پائیں اور اسے قاعدہ قرار دے دیں۔
۲… ناقص یہ ہے کہ چند جزئیات پر نظر کر کے ایک امر کو قاعدہ قرار دیں۔
استقرائے تام … جو عقلاً سب جزئیات کا حصر کرے مفید یقین ہوتا ہے اور استقرار سے ناقص مفید ظن ہوتا ہے۔ (مستفاد از ملاّمبین بحث استقراء ص۲۴۹ج۲)
کیونکہ تمام جزئیات کا حصر نہیں ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دیگر جزئیات جو ہمارے علم میں نہیں آئیں۔ اس نظام وقاعدہ کے ماتحت نہ ہوں۔ جو ہم نے سمجھ رکھا ہے۔ پس اس قرارداد کو قاعدہ کہنا درست نہیں۔ کیونکہ قاعدہ وہ ہے جو جمیع جزئیات پر منطبق ہو لہٰذا ہمارا سمجھا ہوا قاعدہ سنت اﷲ نہ رہا۔
اب سوال یہ ہے کہ جس امر کو ہم نے سنت اﷲ قرار دیا ہے آیا اس کے متعلق خدا نے یا اس کے رسول ﷺ نے کہا ہے کہ یہ سنت اﷲ ہے۔ یا جو قاعدہ ہم نے اپنے استقراء سے بنایا ہے۔ وہ سب جزئیات کو دیکھ بھال کر بنایا ہے اور ہم اس کی مخلوقات کا احاطہ کر چکے ہیں اور اس کی قدرت کے اسرار کو اور اس کے نظام کو کامل طور پر سمجھ چکے ہیں۔ قرآن و حدیث کا واقف اور نظام قدرت پرنظر رکھنے والا بیشک گردن جھکا دے گا اور تسلیم کرے گا کہ ان قواعد کو جو ہم نے بنائے ہیں۔ خدا اور رسولﷺ نے ہرگز سنت اﷲ نہیں کہا اور ہمارا استقراء بالکل ناقص ہے۔ کیونکہ مخلوقات الٰہی اور اس کے عجائبات قدرت انسانی کے احاطہ علم سے باہر ہیں۔
ہم کو ’’ومایعلم جنودربک الاھو (المدثر:۳۱)‘‘یعنی تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور ’’وما اوتیتم من العلم الا قلیلا(بنی اسرائیل:۸۵)‘‘ اس کی دیگر نظائر کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ان آیات میں سنت اﷲ سے انبیاء کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی ناکامی مراد ہے۔ سو اس امر کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ قدیمی روش ہے کہ اس میں تبدیلی نہ ہوگی۔ اس بات کے سمجھنے کے لئے آسان طریق یہ ہے کہ آیات جہاں جہاں قرآن مجید میں وارد