ج… قرآن مجید میں’’یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک‘‘کا تو عام ذکر ہے۔ لیکن ’’بما انزل من بعدک‘‘کہیں ایک جگہ بھی مذکورنہیں۔(۲:۴،۳:۸۴،۳:۱۸۲، ۳:۱۸۴، ۴:۶۰، ۴:۱۶۲، ۶:۴۲، ۶:۴۰،۷:۶۱،۱۶:۶۳،۱۷:۱۷، ۲۱:۲۵، ۲۳:۳۸،۲۵:۲۰، ۳۱:۵، ۳۵:۴، ۳۶:۶۵، ۴۱:۴۳، ۴۲:۷، ۴۳:۴۵) یہ قرآن کسی قوم یا فرقے کے لئے یا کسی خاص دور کے لئے مخصوص نہیں۔ بلکہ ساری خدائی کے لئے اور قیامت تک کے لئے ضابطہ حیات ہے۔(۱۰:۵۷)
۴… سابق انبیاء کرام اپنی اپنی قوم کی طرف آئے۔ (۷:۱، ۷:۵۵، ۷:۶۵، ۷:۳، ۷:۸۵، ۶۱:۶) لیکن حضرت محمدرسول ﷺ تمام انسانیت کے لئے مبعوث ہوئے۔
(۴:۷۹، ۴:۱۷۰، ۷:۱۵۸،۱۲:۳)
یہاں الناس سے مراد ہر وہ انسان ہے جس تک قرآن پہنچے۔ خواہ وہ کسی دور کا ہو۔
اﷲ تعالیٰ کی محمدﷺ کو مع دین حق قرآن بھیجنے کی غرض یہ تھی کہ گذشتہ انبیاء کے قائم کردہ ادیان کو مٹا کر خود غرض اورنفس پرست مذہبی پیشواؤں اور مشائخ نے جو اس دنیا میں خود ساختہ اور باطل مذاہب دین کے نام پر جاری کر رکھے تھے۔ دین اسلام کو مسلمانوں کے ایک اجتماعی نظام کے ذریعے بتدریج ان سب پر غالب کرے۔ خواہ مشرکین کوکتنا ہی ناگوار ہو۔(توبہ:۳۳۹، صف:۶۱،۶) کیونکہ انہو ں نے مفاد خویش کی خاطر دین فروشی کی دکانیں سجا رکھی تھیں۔
۵… سابق انبیاء کی کتب مثلاً تورات، انجیل میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ ان کے بعد احمد نام کا ایک عظیم الشان رسول آنے والا ہے۔(۷:۱۵۷،۶۱،۶) لیکن قرآن مجید میں آئندہ کسی رسول کے آنے کی بشارت نہیں۔
۶… کوئی نبی انسانوں کے لئے مقصود بالذات نہیں ہوتا۔ بلکہ جس طرح گھوڑا خریدنے کے لئے روپیہ ذریعہ بنتا ہے اور کوٹھے پر چڑھنے کے لئے سیڑھی اور دریا پار کرنے کے لئے کشتی ذریعہ بنتی ہے۔ اسی طرح نبی کے لئے صاحب وحی ہونا ضروری شرط ہے۔ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ سورج نکلے اوراس کے ساتھ روشنی نہ ہو۔ اسی طرح یہ بھی نا ممکن ہے کہ دنیا میں ایک نبی انسانوں کی فلاح و اصلاح کے لئے آئے اوراس کے ساتھ وحی الٰہی اور جبرائیل نہ ہو۔