پس سابقہ سلاطین اسلام کی طرح تحفظ ختم نبوت اور بقائے پاکستان کے لئے قادیانی فتنے کا بھی کلی استیصال کرنا اور مرکزی کابینہ اور حکومت کی مشینری سے ان غداران ازل کا اخراج از بس لازمی اور ضروری ہے اور اپنی غفلت شعار حکومت کوہمارا یہی آخری مخلصانہ مشورہ ہے۔ ورنہ بصورت چشم پوشی:
نئے گل کھلیں گے تیری انجمن میں
اگر رنگ یاران محفل یہی ہے
اے اراکین حکومت!آپ نور فراست اورچشم بصیرت سے تاریخ اسلامیہ کا مطالعہ فرمائیں تاکہ آپ کومعلوم ہو کہ مسیلمہ کذاب سے لے کر مرزا قادیانی دجال تک جس قدر بھی مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر جھوٹی نبوت اور رسالت مسیحیت و مہدویت وغیرہ مدعیان کذاب و دجال، ضال و مضل فتّان و مفسد اورزندیق و مرتد پیدا ہوئے ہیں۔ ان سے مسلمانان عالم کو کس قدر ملکی و ملی نقصان پہنچا ہے۔ دور نہ جائیے فتنہ بہایت کو ہی دیکھ لیجئے۔جس نے آج سے قریباً ایک صدی قبل سرزمین ایران میں دعویٰ رسالت و مسیحیت اور مہدیت کی آڑ میں خوف ناک طریق پر ایک فتنہ عظیم برپاکیاتھا۔ جس کا بالآخر ایران کی اسلامی حکومت نے بزور شمشیر قلع قمع کیا اورباقی ماندہ اس فرقہ کے افراد بشکل روپوشی غیر ممالک میں بھاگ گئے۔ دراصل اختتام نبوت حقہ کے بعد اس قسم کے تمام نبوت خیز اور تقدس آمیز تحریکوں کا مقصد حیات اپنا سیاسی تفوق و عروج اور عالم اسلام کی قومی و ملی شان و شوکت کا تنزل و خروج ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ بروقت ان تحریکات باطلہ کا انسداد نہ کیا جائے تو بعد میں بغاوت نما اور قیامت نما نتائج کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ جیسا کہ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ تاریخ اسلام کا ایک ورق پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ کہ جب ہم اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہم کو یہ کم و بیش ایک سیاسی بے چینی کازمانہ نظر آتا ہے۔ آٹھویں صدی کے نصف آخیر میں اس سیاسی انقلاب کے باوجود جس نے سلطنت امیہ (۷۴۹) کو الٹ دیاتھا اور بھی واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ جیسے زنادقہ ایرانی ملحدین کی بغاوت وغیرہ خراسان کا نقاب پوش پیغمبر ان لوگوں نے عوام کی زود اعتقادی سے فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی منصوبوں کو مذہبی تصورات کے بھیس میں یپش کیا۔‘‘ (فلسفہ عجم ص۱۳۷)
اوراب جس طرح قادیانی امت کر رہی ہے۔ پھر کس قدر مقام عبرت ہے کہ ہمارے اراکین حکومت کی قادیانی تحریک سے غیر مدبرانہ چشم پوشی دیکھ کر امت مرزائیہ اور اس کے زر خرید