’’ناظرین پر واضح رہے کہ میاں عبدالحق نے مباہلہ کی بھی درخواست کی تھی لیکن اب تک میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے اختلافی مسائل میں جن کی وجہ سے کوئی فریق کا فر یا ظالم نہیں ٹھہر سکتا،کیونکر مباہلہ جائز ہے… اب اگر میاں عبدالحق اپنے فہم کی وجہ سے مجھے کاذب خیال کرتے ہیں لیکن میں انہیں کاذب نہیں کہتا۔ بلکہ محظی جانتا ہوں اور محظی مسلمان پرلعنت جائز نہیں…اگر میں لعنت اﷲ علی الکاذبین کہوں تو یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ میں اپنے مخالفین کو کاذب نہیں سمجھتا، بلکہ ماؤل محظی سمجھتاہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۶۰، خزائن ج۳ ص۴۵۶)’’اگر اب بھی تمہیں شک ہو تو تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔‘‘
مولوی عبدالحق صاحب و مولوی محی الدین صاحب کا مرزا کو کافر کہنا مذکور صفحات سے پہلے کے صفحات میں ہے۔ دیکھو (ازالہ اوہام ص۶۲۷،۶۲۸طبع اول،خزائن ج۳ص ۴۳۸)’’میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محی الدین صاحب لکھوکے والے اس عاجز کے حق میں لکھتے ہیں کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ چنانچہ عبدالحق صاحب کے الہام میں تو صریح سیصلیٰ انار ذات لہب موجود ہے اور محی الدین صاحب کو یہ الہام ہوا ہے کہ یہ شخص ملحد اور کافر ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہوگا۔‘‘
مباہلہ کے انکار سے قبل اسی ازالہ میں دعویٔ مسیحیت کی عبارات ملاحظہ ہوں۔ (ازالہ اوہام ص۱۳۹،۱۴۰طبع اول، خزائن ج۳ص۱۷۱)’’ہم نے جو رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام میں اس اپنے کشفی اور الہامی امر کو شائع کیا ہے کہ مسیح موعود سے مراد یہی عاجز ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بعض ہمارے علماء اس پر بہت برافروختہ ہوئے ہیں۔‘‘(ازالہ ص۱۸۵ طبع اول،خزائن ج۲ص۱۸۹)’’ اگر یہ عاجز مسیح موعود نہیں تو پھر آپ لوگ مسیح موعود کو آسمان سے اتار کر دکھلا دیں۔‘‘
(ازالہ ص۴۱۳)’’پس واضح ہو کہ وہ مسیح موعود جس کا آنا انجیل اور احادیث صحیحہ کی رو سے ضروری طور پرقرار پاچکاتھا۔ وہ تو اپنے وقت پر اپنے نشانوں کے ساتھ آگیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۶۵ طبع اول،خزائن ج۳ص ۴۵۹)’’مسیح موعود ہونے کاثبوت‘‘یہ عنوان جلی حروف میں ہے۔
پس نتیجہ یہ ہواکہ اب مرزا کا عقیدہ وہ نہیں رہا کہ وہ صرف مسیح موعود ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ نبی ہے اوراس کے مخالفین کا فر ہیں اور لعنۃ اﷲ کے مستحق ہیں۔
۱۱… نیز مرزا کو جو لوگ قبول کر کے پھر اس سے کذب و دجل کی وجہ سے برگشتہ ہو گئے ہیں۔ ان کومرزا نے مرتد کہہ کر پکارا ہے۔ (مرتد وہی ہوتا ہے جو کسی نبی کو مان کر پھر اس سے برگشتہ ہو جائے)