روح اس انسانی روح کو جو بارادہ الٰہی اب محبت سے بھر گئی ہے۔ ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اس وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کوخدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت ہے، استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چونکہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لئے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے۔ جو اس درجہ محبت کے لئے ضروری ہے۔ جس کو ناپاک طبیعتوںنے مشرکانہ طورپر سمجھ لیا ہے۔‘‘
ف… مرزا قادیانی نے اس جگہ بالکل نصاریٰ کی تقلید کی ہے۔
(دیکھو خط اول یوحنا باب ۵آیت ۷)’’تین ہیں جو آسمان پرگواہی دیتے ہیں۔ باپ اور کلام اور روح القدس اور یہ تینوں ایک ہیں۔‘‘ اور نیز باب۲ آیت ۱۔ ’’دیکھو کیسے محبت باپ نے ہم سے کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلاویں۔‘‘
ف ثانی… جیسے نصاریٰ محبت کے ذریعہ سے خدا کے فرزند ہونے کے دعوے دار ہوئے ہیں۔ ویسے ہی مرزا قادیانی بھی ہیں۔ اگر کچھ فرق ہے تو چال بدلنے کا ہے۔ ورنہ دعویٰ دونوں کا ایک ہی ہے کہ ہم محبت کے باعث خدا کے فرزند ہیں۔
(توضیح المرام ص۲۷، خزائن ج۳ص۶۴)میں مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں کہ ’’مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔‘‘
ف… مرزا قادیانی یہاں بطور استعارہ ابنیت کے مدعی ہوئے ہیں۔
(ازالہ اوہام ص۶۵۹،خزائن ج۳ ص۴۵۶)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’پس مثالی صورت کے طور پر یہی عیسیٰ بن مریم ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا۔ کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ اس کا کوئی والد روحانی ہے۔ کیا تم ثبوت دے سکتے ہو کہ تمہاری سلاسل اربعہ میں سے کسی سلسلہ میں یہ داخل ہے۔ پھر اگر ابن مریم نہیں تو کون ہے۔‘‘
ف … اس جگہ مرزا قادیانی نے بغیر باپ کے پیدا ہونا خود تسلیم کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اکثر جگہ لکھتے ہیں کہ ’’میرے والد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا۔‘‘ پھر بغیر باپ کے پیدا ہونے کا مدعی ہونا بعید از عقل ہے۔
(ازالہ اوہام ص۶۷۴، خزائن ج۳ص۴۶۳)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں کہ ’’پھر جب انسانیت پر فنا طاری ہونے کے وقت میں ایک ایسے ہی انسان کی ضرورت تھی۔ جس کا محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے تولد ہوتا جس کا آسمان پر ابن مریم نام ہے تو کیوں خدا تعالیٰ کی قادریت اس ابن مریم کے پیدا کرنے سے مجبور رہ سکتی۔ سو اس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کے زمینی والد