(۷)انبیاء علیہم السلام کی بد اخلاقی نعوذباﷲ
دافع البلاء کی عبارت دیکھو۔ کتاب ہذا میں حضرت مسیح کو بداخلاق ثابت کیا۔
۸… حضرت موسیٰ علیہ السلام اورفرشتوں کو برے لفظوں سے یاد کیا۔
(تریاق القلوب ص۱۲۳ تا ۱۲۷ حاشیہ،خزائن ج۱۵ص۴۲۰،۴۲۴)
جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات کوتاہ بین اور شریر شخص حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کے کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام پر باز پرس کرنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں او ر حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق گفتگو کرنے والے ملائکۃ اﷲ تھے۔ تو اس کی گذشتہ گالی کوتاہ بین شریر شخص کا اب مورد کون ٹھہرے گا۔(عیاذا باﷲ!)
۹… تمام انبیاء کرام کو شیطان سے مغلوب کہتا ہے(عیاذا باﷲ!) اورخود کو غالب۔
(ماالفرق فی آدم والمسیح الموعود ص ت حاشیہ،ملحقہ خطبہ الہامیہ، خزائن ج۱۶ص۳۱۲)
’’ان اﷲ خلق آدم و جعلہ سید اوحاکما وامیرا علی کل ذی روح من الانس و الجان کما یفہم من آیۃ اسجدو الآدم ثم اذلہ الشیطان و اخرجہ من الجنان وردالحکومۃ الیٰ ہذا الثعبان و مس آدم ذلۃ و خزی فی ہذہ الحرب والہوان و ان الحرب سجال وللا تقیاء آمال عند الرحمان فخلق المسیح الموعود لیجعل الہذیمۃ علی الشیطان فی آخر الزمان۔‘‘
(ص۱حاشیہ، خزائن ج۱۶ص۳۰۷)’’وکان اﷲ قد قدر من الازل ان تقع الحرب الشدید مرتین بین الشیطان والانسان مرۃ فی اول الزمان ومرۃ فی آخر الزمان…واخرج آدم من الجنۃ ونال ابلیس مراد اشاء وکان من الغالبین ولما جاء وعدالآخرۃ اراد اﷲ ان یردالکرۃ علی ابلیس و فوجہ و یقتل ہذالدجال بحربۃ منہ فخلق المسیح الموعود الذی ھو آدم و قد اشار اﷲ الی ہذا الفتح العظیم و قتل الدجال القدیم الذی ھو الشیطان فی قولہ قال انک من المنظرین یعنی لا یقع امرا ستیصالک التام…الا فی آخرالزمن وقت المسیح الامام۔‘‘
ان عبارات سے ثابت ہوا کہ یہ شیطان پہلے کسی نبی کے وقت مغلوب نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ