یعنی جو شرکیہ عقائد جاہلوں نے اپنے پیروں کے لئے ذہن نشین کر رکھے ہیں۔ ان کو خدا کی طرف سے مرزا کے لئے ثابت کیا جانا چاہئے۔ ورنہ اس کے وعظ کا اثر نہیں ہوتا۔
مرزا نے خود لکھا ہے کہ مدعی نبوت دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ پھر مرزا خود مدعی نبوت ہے جیسا کہ ہم ثابت کریں گے۔ (حمامۃ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ص۲۹۷)’’ماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۴، خزائن ج۴ ص۳۷۳)’’ ان سب عقائد پرایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتاہوں اور میں مدعی نبوت کا نہیں۔ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
اب مرزا کے ادعاء نبوت کے ثبوت ملاحظہ کیجئے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۳حاشیہ، خزائن ج۲۱ص۶۸)’’میری دعوت کے مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا۔‘‘ (ایام الصلح ص۸۵ حاشیہ، خزائن ج۱۴ ص۳۲۱)’’اصل بات یہ ہے کہ مسیحیت یا نبوت کا دعویٰ کرنے والا اگر درحقیقت سچا ہے تو یہ امر ضروری ہے کہ اس کا فہم اور درائت اور لوگوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۲۷۲ ضمیمہ نمبر۳)’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں…ہم نبی ہیں اور حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ کرناچاہئے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۱، خزائن ج۲۲ص۱۰۵)’’ انا ارسلنا الیکم رسولا شاہدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا۔‘‘
یہ مرزا کو الہام ہوا ہے۔ اس میں وہی رسالت مذکور ہے جو محمدی رسالت و نبوت ہے۔ مثلہ (انجام آتھم ص۵۱، خزائن ج۱۱ص ایضاً) (حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۲۲ص۱۵۳)’’اوائل میں میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح بن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اورخدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی تو اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸س۲۳۳)’’اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدارکھا گیا۔ خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا۔ جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے دوسرے مسیح کانام غلام احمد رکھا۔‘‘
تمام عبارات سے مرزا کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔