اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘
۳… علماء اسلام کو گالیاں دینا گورنمنٹ کی سیاسی پالیسی پر مبنی تھا۔
(ازالہ اوہام ص۷۲۳،۷۲۴حاشیہ، خزائن ج۳ص۴۹۰)’’جب ہم ۱۸۵۷ء کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتوؤں پر نظرڈالتے ہیں۔ جنہوں نے عام طورپر مہریں لگا دی تھیں کہ انگریزوں کو قتل کر دینا چاہئے۔ تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ کیسے مولوی تھے؟ کیسے ان کے فتوے تھے؟ جن میں نہ رحم تھا، نہ عقل تھی، نہ اخلاق، نہ انصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پرحملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔‘‘
۴… اپنی پیش گوئیوں کے اظہار و اخفاء میں بھی انگریز کے ایماء پر کام کرتا تھا۔
(اربعین ص۱حاشیہ، خزائن ج۱۷ص۳۴۳)’’پس ہر ایک پیش گوئی سے اجتناب رہے گا جو امن عامہ اور اغراض گورنمنٹ کے خلاف ہو۔‘‘
۵… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین میں بھی انگریز کی پالیسی ہی مطمح نظر تھی۔
(حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست ص ب، ج، خزائن ج۱۵ص۴۸۹تا ۴۹۱،ملحقہ تریاق القلوب)
’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے۔ جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کر سکتا… ہاں میں اس بات کا اقرار کرتاہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحثات بھی کیا کرتاہوں اور ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شائع کرتا رہا ہوں اور میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی…تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبا دینے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو…سو مجھے پادریوں کے مقابل میں جو کچھ وقوع میں آیا ہے۔ یہی ہے حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا ہے اور دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام