(ازالہ ص۷۴۸،۷۵۰،خزائن ج۳ص۵۰۳،۵۰۴)’’پھر وہ ایک اور وہم پیش کرتے کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض مردے زندہ ہوگئے۔ جیسے وہ مردہ جس کا خون بنی اسرائیل نے چھپا دیاتھا۔جس کاذکر اس آیت میں ہے’’واذقتلتم نفسافادّٰرأتم فیھا واﷲ مخرج ما کنتم تکتمون‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ …یہ طریق علم عمل الترب مسمریزم کا ایک شعبہ تھا۔ جس کے بعض خواص میں سے یہ بھی ہے کہ جمادات یا مردہ حیوانات میں ایک حرکت مشابہ بحرکت حیوانات پیدا ہو کر اس سے بعض مشتبہ اور مجہول امور کا پتہ لگ سکتا ہے۔‘‘
اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کو بے وقعت کیا جارہا ہے۔(ازالہ اوہام ص۷۵۳، خزائن ج۳ص۵۰۶)’’اور یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں چار پرندوں کاذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جداجدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑاگیاتھا اور پھر وہ بلانے سے آ گئے تھے۔ یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزہ کو بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش ہے اور آنحضرتﷺ پر یہ تہمت لگائی کہ آپ مدۃ العمر غلطی میں مبتلارہے۔
(ازالہ اوہام ص۴۰۰،۴۰۱، خزائن ج۳ص۳۰۷)’’جب آنحضرتﷺ کی بیبیوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ماپنے شروع کئے تھے تو آپ کو اس غلطی پر متنبہ نہیں کیاگیا۔ یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے۔‘‘
نیز آنحضرتﷺ پر یہ تہمت لگائی کہ آپ کی پہلی وحی ہی شیطانی تھی۔
اگر کوئی جواب دے کہ مرزا کی ان باتوں کی بنیاد بائیبل مقدس پر ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ مرزا کے نزدیک اناجیل کا ذرہ بھر بھی اعتبار نہیں۔ یہی تو دلیل ہے کہ یہ سب باتیں بے ثبوت تہمتیں ہیں۔ دیکھو
(تریاق القلوب ص۸، خزائن ج۱۵ص۱۴۲)’’یہ چاروں انجیلیں جو یونانی سے ترجمہ ہو کر اس ملک میں پھیلائی جاتی ہیں کہ ایک ذرہ قابل اعتبار نہیں۔‘‘
نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا نے کیونکر مقدسین پر بے ثبوت اتہامات لگائے ہیں۔ اس لئے وہ (آریہ دھرم ص۵۵)کے تمام القاب کا مستحق ٹھہرا۔
۵… (ملفوظات احمدیہ حصہ دوم ص۸۵سلسلہ اشاعت لاہوری)’’اسی طرح انسان کو چاہئے کہ جب