عموماً ہر جگہ استغراق حقیقی مراد نہیں ہواکرتا تاکہ قدخلت من قبلہ الرسل میں استغراق حقیقی مراد ہو
مرزا عموماًایسی آیات و احادیث سے استدلال کیا کرتا ہے۔ جن کو خصوصی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام سے تعلق نہیں۔ بلکہ وہ عمومی حالات وواقعات ہوا کرتے ہیں اور یہ عموماً قاعدہ مسلمہ ہے کہ عمومات واردہ میں تخصیصات ہواہی کرتی ہیں۔ ہم ذیل میں چند ایک آیات عامہ پیش کرتے ہیں۔ جن میں استغراق حقیقی مراد نہیں۔ لیکن وہ عمومی حالات و واقعات کو بیان کرتی ہیں۔ بلکہ مرزا کے بھی خود ایسے اقوال پیش کرتے ہیں۔ جن کو اس نے بطور استغراق یا بطور کلیہ بیان کیا ہے۔ لیکن وہاں اس کی مراد بھی عموم کلی و استغراق حقیقی نہیں ہے۔
۱… ’’یایھا الناس ان کنتم فی ریب من البعث فانا خلقنا کم من تراب الآیۃ (پ۱۷حج، پ۲۴مومن)‘‘
۲… ’’ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ثم جعلناہ نطفۃ الآیۃ (پ۱۸ مومنون)‘‘
۳… ’’ان رسلنا یکتبون ماتمکرون (پ۱۱، یونس)‘‘
۴… ’’یایھا الناس اناخلقنا کم من ذکروانثی (پ۲۶حجرات)‘‘
۵… ’’ویقتلون الانبیاء بغیرحق (پ۴،آل عمران)‘‘
۶… ’’یقتلون الذین یا مرون بالقسط من الناس (پ۳،آل عمران)‘‘
۷… ’’وکان الانسان عجولا (پ۱۵،بنی اسرائیل)‘‘
۸… ’’ان الذین کفروا سواء علیہم اأنذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون (پ۱، بقرۃ)‘‘
۹… ’’واذا اذقنا الناس رحمۃ فرحوابہاوان تصبہم سیئۃ بما قد مت ایدیھم اذاھم یقنطون (پ۲۱،روم)‘‘
۱۰… ’’الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدیناہ النجدین (پ۳۰،بلد)‘‘
اقوال مرزا
۱… ’’ان لفظ التوفی فی القرآن فی کل مواضعہا ماجاء الاللاماتۃ و