اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے اسی ’’فنا‘‘ کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے فرمایا:’’بعثت انا والساعۃ کھاتین‘‘{میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح بھیجے گئے ہیں کہ جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میںتھوڑا سا فرق ہے۔ اسی طرح میرے بعد جلد ہی قیامت آنے والی ہے۔}
رسول اکرم ﷺ نے قرب قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ان من اشراط الساعۃ ان یرفع العلم، الخ‘‘{قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا۔} (صحیح بخاری کتاب العلم، باب رفع العلم و ظہور الجہل ج۱ ص۱۸)
ایک دوسری حدیث میں نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ علم کس طرح اٹھالیاجائے گا؟ ارشاد نبویؐ ہے:’’ان اﷲ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء الخ(صحیح بخاری، کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم ج۱ ص۲۰)‘‘{اﷲ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں قبض کرے گا (اٹھائے گا) کہ اسے بندوں سے چھین لے بلکہ وہ علم کو اس طرح اٹھا ئے گا کہ علماء کو اٹھا لے گا۔}
مندرجہ بالا احادیث سے یہ با ت ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیاکی زندگی علم سے ہے اور علم کا اٹھ جانا اس کائنات کے لئے پیغام اجل ہے۔ شاید اسی لئے کسی نے کہا اور بالکل صحیح کہا :’’موت العالم موت العالم‘‘{عالم کی موت جہان کی موت ہے۔}
عالم اسلام پر بالعموم اوربرصغیر پاک وہند پر بالخصوص حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کا تعلق قرآن اور حدیث سے جوڑنے کا تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا۔ خصوصاً حدیث رسولﷺ کی اشاعت میں اس خاندان کی عظیم خدمات ہیں۔ شاہ ولی اﷲؒ کے بعد شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اور پھر ان کے نواسے اور شاگرد رشید شاہ محمد اسحاق صاحب دہلویؒ اور ان کے دوسرے شاگرد شاہ عبدالغنی صاحبؒ کی یہ علمی میراث علماء دیوبند کی طرف منتقل ہوئی۔ چنانچہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ و مولانا رشید احمدگنگوہیؒ کے بعدشیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، نابغۂ عصر، نمونۂ سلف، حافظ الحدیث، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ وہ نمایاں ترین ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے علم حدیث کی بہترین خدمات انجام دیں اور قدرت نے ان بزرگوں کو ایسے تلامذۂ راشدین سے نوازا۔ جنہوں نے اپنے علم، زہد، تقویٰ اور فراست و فقاہت سے ایک عالم کو منور کیا۔
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدانورشاہ کشمیریؒ کے خصوصی تلامذہ میں سے قاری محمد طیب