ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
شاگرد تھے ـ ایک روز ان سے فرمایا مولوی یسین ! میں ادھورا رہ گیا کامل نہیں ہوا ـ ( دیکھئے ایک شیخ کامل لوگوں کے سامنے یہ کہتے ہیں ) تمہارے شیخ (مولانا گنگوہیؒ) اگر چاہیں تو میری تکمیل کر سکتے ہیں مگر وہ رسید ہی نہیں دیتے مجھے غصہ آتا ہے میں کہتا ہوں کہ مجھے تمہاری پرواہ نہیں میں اپنے شیخ کے پاس چلا جاؤں گا تو کہتے ہیں کہ مدرسہ چھوڑ کر جاؤ گے تو گناہ ہو گا - بس جی معلوم ہوتا ہے کہ میں ادھورا ہی مر جاؤں گا ـ نہ تو جانے ہی دیتے ہیں نہ خود تکمیل کرتے ہیں ـ دیکھئے شاگردوں کے مجمع میں یہ فرما رہے ہیں ـ پھر جب ان سب حضرات کا سفر حج ہوا اور حج کے بعد مدینہ منورہ کی تیاری ہوئی تو سب نے مشورہ کیا کہ حضرت کی خدمت میں ہم سب تو بہت رہے ہیں یہ زیادہ نہیں رہے انہیں حضرت کی خدمت میں چھوڑ جاؤ مگر یہ تو کسی کی سنیں گے نہیں اس لئے حضرت سے کہو ـ حضرت سے عرض کیا گیا تو دیکھئے کیا اخلاق اور کس قدر خیر خواہی تھی مولانا محمد یعقوب صاحب سے فرمایا کہ تم میرے پاس رہو یہ تمہارے رفقا مدینہ جاویں گے ـ مولانا کو گرانی تو ہوئی مگر شیخ کا حکم تھا رہ گئے ـ حضرت نے رفقاء سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ جب میرے پاس بیٹھیں خاموش بیٹھ کر یہ خیال کر لیا کریں کہ ان کے سینہ سے میرے سینہ میں فیض آ رہا ہے گو میں دوسروں سے باتیں کرتا رہوں ـ صاحب ملفوظات نے بطور جملہ معترضہ کے فرمایا ایک وقت میں دو طرف کامل کا نفس تو متوجہ ہو جاتا ہے ناقص کا متوجہ نہیں ہوتا اور النفس لا تتوجہ الی شیئین فی ان واحلا میں نفی امکان کی نہیں ہے ـ نفی وقوع کی ہے وہ بھی عادی باعتبار اکثر کے ـ مولانا فضل حق خیر آبادی کا حال سنا ہے کہ ایک ہی وقت میں درس بھی دیتے رہتے تھے اور شطرنج بھی کھیلتے رہتے تھے اور تصنیف بھی کرتے رہتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میرا ذہن مرکب ہے اور لوگوں کا بسیط ہے کہ تقریر و شطرنج اور تصنیف ایک ہی وقت میں ہو جاتے ہیں ـ پھر حضرات اہل طریق کی شان تو بہت ہی بڑی ہے ـ تنبیہ : ـ آزاد علماء کے فعل سے شطرنج کے جواب کا شبہ نہ کیا جائے ـ تتمہ قصہ کا فرمایا جب ان کے فقاء مدینہ سے واپس آئے تو حضرت حاجی صاحب نے ان سے شکایت فرمائی کہ ان کو ایک سہل سی بات بتائی تھی ـ وہ بھی نہ ہو سکی جب کوئی آ کے بیٹھتا مجھ سے پہلے یہ بولنے لگتے تھے ـ