ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
ـ اس نے کہا ہیں میں نے کہا یہ سب جانتے ہیں کہ مذہب حق کا اتباع کرنے والا مثل مطیع سلطنت کے ہے اور اس کے خلاف کرنے والا مثل باغی سلطنت کے ہے ـ آپ کو یہ تسلیم ہے یا نہیں ـ اس نے کہا یہ بھی واجب التسلیم ہے میں نے کہا اب یہ سمجھ لیجئے کہ ایک شخص بہت بڑا فلسفی اور عالم ہے تمام کمالات سے آراستہ اور ہر قسم کے فضائل سے متصف ہے ـ مگر بادشاہ وقت کی انتہائی مخالفت کرتا ہے ہر وقت علم بغاوت بلند رکھتا ہے ـ پھر اتفاق وقت سے وہ گرفتار ہو جاتا ہے اور بادشاہ وقت علم بغاوت بلند رکھتا ہے پھر اتفاق وقت سے وہ گرفتار ہو جاتا ہے اور بادشاہ اس کے لئے پھانسی کی سخت سزا تجویذ کرتا ہے اس کا مال جائیداد ضبط کرتا ہے وہ اپنے کمالات کی وجہ سے جس انعام و اکرام کا مستحق تھا اس سے محروم رکھتا ہے تو اب اس وقت اگر کوئی شخص کہے کہ ایسے ہنر مند و باکمال شخص کے ساتھ ایسی سخت سزاؤں کا روا رکھنا عدل و انصاف سے کوسوں دور اور کھلا ہوا ظلم ہے تو آپ ہی سب سے پہلے جواب دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ گو یہ بڑے بڑے کمالات کا حامل ہے ـ مگر چونکہ اسکا جرم بہت ہی سنگین ہے کہ بادشاہ وقت کی بغاوت کی تھی ـ اس لئے اب اس کے کمالات کی کوڑی نہیں اٹھتی ہے اور یہ عتاب شاہی کا سزا وار ہے اس کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ سراسر عدل و ںصاف ہے ـ اب فرمائیے یہ جواب صحیح ہو گا یا نہیں ـ اس تقریر کو سن کر وہ بالکل خاموش ہو گیا کیونکہ جواب معلوم ہو گیا کہ غیر مسلم (کافر) رب العالمین کا باغی ہے اس لئے اسکا کوئی عمل خیر اللہ تعالی کے نزدیک معتبر نہیں اس کا جرم کفر بغیر توبہ کے قابل عفو نہیں وہ کسی قسم کے اجرو ثواب کا مستحق نہیں ـ غرض تقریر مذکور بالا کے بعد میں نے کہا کہ پس ایسی صورت میں کہ آپ جواب جانتے ہیں سوال کرنے کا بجز اسکے کچھ نتیجہ نہیں کہ میں آپ کو کافر کہوں مگر مجھ کو اسلامی تہذیب اسکی اجازت نہیں دیتی ہے کہ میں کسی کو بلا ضرورت کافر کہوں ـ اس نے کہا ہاں واقعی میں یہی کہوانا چاہتا تھا اور ایسے منہ سے کافر سننے میں بھی حظ آتا ہے ـ میں نے کہا کہ یہ آپ کا حسن ظن اور کمال شرافت ہے لیکن میری دینی تہذیب کا مقتضٰی وہی ہے جسے میں نے عرض کیا ـ اس کے بعد اس نے میرا پتہ پوچھا ـ میں نے تبا دیا کہ تھانہ بھون میرا وطن ہے اس نے کہا کہ میں آریہ سماج کے جلسوں میں تھانہ بھون میں آتا رہتا ہوں اب کی بار اگر آنا ہوا تو آپ کی