ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
جائے یا کسی اور طریقہ سے مشتہر کر دیا جائے تاکہ کمی بیشی اور مہمانوں کی پریشانی کا احتمال نہ رہے اہل مدرسہ صرف قیام کا انتظام اپنے ذمہ لیں اور کھانے کا انتظام نہ کریں آنے والے دوکانوں پر کھالیں اور جو لوگ دس دس بیس بیس روپے آمد و رفت میں خرچ کر سکتے ہیں ان کو کھانے میں ایک دو روپے کا خرچ کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا اور ادھر مدرسہ کو ایک بڑی رقم بچ جائے گی ـ لیکن میری اس رائے کو تسلیم نہیں کیا گیا اور صرف یہ فرما کر ٹال دیا گیا کہ عرف و معمول کے خلاف ہے ـ رواج اسکی اجارت نہیں دیتا ہے ـ تیس ہزار کے مجمع کو کئی وقت کھانا کھلایا اور کھانا ایسا لذیذ وعمدہ کہ ایسے ایسے متمول لوگ جن کو اپنے یہاں کے کھانے پر ناز تھا کہتے تھے کہ ہم نے ایسا کھانا کہیں نہیں کھایا تھا ـ ادھر تو مدرسہ کو زبردست زیر باری ہوئی اور ادھر منتظمین کی ایک بڑی جماعت مواعظ میں شریک نہ ہو سکی حالانکہ جلسہ کا اصل مقصود مواعظ ہی تھے یہ ہے رواج کی پابندی کا نتیجہ ـ اسی سلسلہ میں یہ مسئلہ فرمایا کہ زبردستی نرخ مقرر کرنا جائز نہیں ہے ہاں لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے اگر باہمی مفاہمتی سے ایسا کر دیا جائے تو بہتر ہے ـ پھر فرمایا میرے یہاں اب یہ دستور ہے کہ مہمان جتنے دنوں چاہے قیام کریں اپنے کھانے کا انتظام خود کریں گے ـ ہاں جن سے خصوصیت اور بے تکلفی ہے اور ان کا قیام بھی قلیل ہو یا انکو انتظام میں دقت ہو تو ان کا کھانا مکان سے آتا ہے ـ گو میرا یہ دستور رواج کے خلاف ہے ـ لیکن اس میں طرفین کو راحت ہے ـ مہمان جب چاہیں اور جو چاہیں کھا پی سکتے ہیں ـ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قیام میں آزاد ہیں جتنا جی چاہے قیام کریں ورنہ بہت سے غیور طبع انسان بجائے پندرہ یوم کے پانچ یوم بھی نہ ٹھہر سکتے ـ یوں کہتے کہ مفت کی روٹیاں کھانا یا بار ڈالنا مناسب نہیں ـ نیز جلد جلد آنے کا رادہ بھی نہ کر سکتے ـ اور ان باتوں سے ان کا دینی نقصان ہوتا ـ اب بحمداللہ تعالی یہ خرخشے نہیں ہیں اور میں اس فکر سے آزاد ہوں کہ مہمانوں کے لئے کیا پکا اور کب پکا ـ کون مہمان موجود ہے ـ کون غائب ہے ـ کوئی پرہیزی کھانا تو نہیں کھاتا وغیرہ وغیرہ ـ اب جب اس اطمینان کے ساتھ میں دینی خدمات انجام دے سکتا ہوں مہمان نوازی کی صورت میں کہاں ممکن تھا ـ خصوصا اس صورت میں کہ مہمان بھی بڑی تعداد میں بکثرت آتے رہتے ہیں ـ اس سلسلہ میں فرمایا ایک مرتبہ مدارس عربیہ کی