۴… چراغ ہدایت:
مؤلفہ حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ، موصوف حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ آپ نے اپنے استاذ کی تقریر ترمذی کو العرف الشذی کے نام سے تحریر کیا جو اس وقت ہر ترمذی پڑھانے والے کے لئے چراغ راہ کا کام دیتی ہے۔
حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کا فتنہ قادیانیت کے خلاف جو جذبہ جہاد تھا۔ وہ نسبت حضرت مولانا محمد چراغ مرحوم میں بھی منتقل ہوئی۔ آپ ردقادیانیت کے اپنے وقت کے امام تھے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ مرزاقادیانی کی تکذیب اس کی اپنی تحریرات سے کرتے تھے۔ ہمارے استاذ محترم فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ، حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ کے ردقادیانیت پر شاگرد اور جانشین تھے۔ حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ نے ایک کاپی ردقادیانیت پر مرتب کی تھی۔ جس میں ختم نبوت، حیات مسیح علیہ السلام اور کذب مرزا تینوں موضوعات پر جاندار مناظرانہ مباحث کو دریا بکوزہ بند کیاگیا تھا۔ عرصہ تک وہ کاپی نقل درنقل ہوتی رہی۔ حضرت مولانا محمد حیات اسی کو سامنے رکھ کر تیاری کرنے کا اپنے شاگردوں کو حکم دیتے تھے۔ مولانا محمد چراغ گوجرانوالہ میں جامعہ عربیہ کے بانی تھے۔ آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا محمد انور صاحب نے فروری ۱۹۹۰ء میں اس کاپی کو کتابی شکل میں ’’چراغ ہدایت‘‘ کے نام پر شائع کیا۔ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کی کاپی پر اکثر حوالے مرزاقادیانی کی کتب کے لاہوری ایڈیشن کے تھے۔ کاپی کو جب کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو مولانا محمد انور صاحب کے حکم پر ان کے دونمائندے ملتان دفتر مرکزیہ آئے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کی معاونت سے انہوں نے قادیان وچناب نگر ایڈیشنوں کے حوالہ جات اس پر لگائے۔ اب ایڈیشن میں الحمدﷲ! کہ دجال قادیان کی کتب کے مجموعہ خزائن کے حوالہ جات بھی لگادئیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں علمی حلقوں میں ایک لفظ ’’جامع‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ واقعہ میں ردقادیانیت کے لئے یہ کتاب جامع کا درجہ رکھتی ہے۔ ربع صدی بعد جدید ایڈیشن کی اشاعت عالمی مجلس کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ ہمارے دادا استاذ حضرت مولانا محمد چراغؒ اتحاد العلماء کے بھی بانی تھے جو جماعت اسلامی پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے۔ مولانا محمد چراغ سے جناب مودودی صاحب کا جوڑ بجاطور پر ہمارے خیال میں ریشم میں ٹاٹ کے پیوند کے مترادف ہے اور اس سے بہتر تعبیر کرنی کم ازکم فقیر کے لئے ممکن نہیں۔ کتاب کی اشاعت بہرحال ہمارے لئے ڈھیروں خوشیاں لئے ہوئے ہے۔ اس کتاب کی احتساب میں شمولیت گویا فقیر راقم کی اپنے دادا استاذ سے ایک نسبت قائم ہو جانے کی خوشخبری اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ فالحمدﷲ!