اب ذیل میں چند ایسے حوالہ جات سے مستفید ہونے کی کوشش کیجئے۔ جن میں مرزا قادیانی آنحضرتﷺ کے بعد کسی قسم کے نبی کا آنا جائز نہیں سمجھتا۔ پھر تشریعی اور غیر تشریعی ظلی وبروزی، اصلی ونقلی، حجازی، بالواسطہ یا بلاواسطہ کثرت اتباع نبویہ سے مرتبۂ نبوت حاصل کرنا سبھی قسم کی نبوتیں مسدود ہیں۔ کوئی نبوت بھی باقی نہیں ہے۔
۵… پانچویں وجہ یہ ہے کہ ۱۹۰۴ء میں مرزا قادیانی کا مقدمہ گورداسپور میں مولوی کرم الدین کے ساتھ تھا۔ دیکھو(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۵۴،روایت نمبر۴۶۷)تواس وقت مرزا قادیانی سے دریافت کیاگیا کہ تیرا عقیدہ اپنے مرتبہ اور شان کے متعلق وہی ہے جو تریاق القلوب میں ہے تو اس وقت مرزا نے اقرار کیا کہ میرا وہی عقیدہ ہے۔تو گویا ۱۹۰۴ء میں ابھی تک ختم نبوت کا قائل ہے یا اپنے منکر کو کافر نہیں سمجھتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۶۶،خزائن ج۲۲ص۲۷۸)
سب نبوتیں بند ہیں
بسا اوقات قادیانیوں کو جب مرزا قادیانی کی عبارتوں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تو اس وقت یہ بہانہ ڈھونڈا کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے نبوت تشریعی کو اور مستقل نبوت کو جو بزعم مرزا اﷲتعالیٰ سے براہ راست حاصل ہوتی ہے۔ مسدود اور ختم شدہ کہا ہے۔ لیکن غیر شریعی نبوت اور آنحضرتﷺ کی کثرت اتباع سے حاصل ہونے والی نبوت مسدود نہیں۔ بلکہ جاری اور باقی ہے۔ میں اس حیلہ کو بھی بند کر دینا چاہتاہوں۔ ملاحظہ ہوں اقوال مرزا۔
۱… (براہین احمدیہ ص۱۰، خزائن ج۱ص۱۹)
ختم شد برنفس پاکش ہر کمال
لاجرم شد ختم ہر پیغمبری
۲… (سراج منیر ص ح، خزائن ج۱۲ص۹۵)
ہست او خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت رابروشد اختتام
یہی شعر اخبار بدر ۱۹۰۶ء کے مختلف نمبروں میں درج کیاگیاہے۔جس کو پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ قادیانی مذہب کا یہ پختہ نظریہ ہے۔
۳… (ایا م الصلح ص۱۴۶،خزائن ج۱۴ص۳۹۳)’’ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ میں بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری و گستاخی ہے کہ خیالات