M
امابعد۔واضح ہو کہ اتباع حضرت محمد مصطفی ﷺ ہر مسلمان کلمہ گو پر فرض عین ہے۔ جیسا کہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ ویغفرلکم ذنو بکم واﷲ غفور رحیم (آل عمران:۳۱)‘‘{کہہ دو کہ اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو۔ اﷲ تم کو پیار کرے گا اورتمہارے گناہ بخش دے گا اور اﷲ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔}
جاننا چاہئے کہ اتباع حکم کے لئے عظمت وحرمت کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے اور عظمت و حرمت سچی معرفت اورمحبت سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے جب کسی کے دل میں حضرت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت پیدا ہوگی تو لازمی طور سے وہ عظمت وحرمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اتباع حکم کے لئے مستعد ہو جائے گا۔ مگر عظمت و محبت پیدا کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کی سوانح حیات، اقوال اور اعمال کا بہ نظر غائر مطالعہ ضروری ہے اور اگر بہ نظر غائر مطالعہ نہیں ہوگا تو معرفت و محبت پیدا نہیں ہو سکتی اور جس کے مطالعہ میں جس قدر کمی ہوگی اور جس کے دل میں معرفت و محبت کی کمی ہوگی۔ اس کے دل میں نبی علیہ السلام کی عزت و حرمت پیدا نہیں ہو سکتی اور جب دل میں عزت و حرمت نہیں تو وہ شخص حکم کی فرمانبرداری سے محروم ہوتا چلاجائے گا اور جب نبی ﷺ کے حکم کی فرمانبرداری سے محروم ہوا تو خدا تعالیٰ کی محبت زائل ہونی شروع ہوگی اور جب خدا تعالیٰ کی محبت میں کمی واقع ہوگئی تو لازمی طور سے اس شخص کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت و محبت کے لئے نبی ﷺ کی معرفت و محبت کا حاصل ہونا ایک لازم و ملزوم امر ہے۔ جس کے بغیر نجات ابدی ناممکن ہے۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’فرمایا رسول خدا ﷺ نے کہ نہیں ہوسکتا مومن تم میں سے کوئی، یہاںتک کہ ہوں میں پیارا اس کی طرف اس کے باپ اوراس کی اولاد اور تمام دوسرے آدمیوں کی نسبت‘‘(بخاری و مسلم)
اس زمانہ میں یعنی چودھویں صدی کے اندر عام طور پردیکھاجاتا ہے کہ مسلمانوںکو حضرت محمدﷺ کے ساتھ اصلی محبت نہیںرہی۔ جس کاثبوت یہ ہے کہ مسلمانوںمیں رسول ﷺ کے احکام کی فرمانبرداری کا شوق بالکل زائل ہورہا ہے۔ جیسا کہ نقشہ مندرجہ ذیل سے بخوبی واضح ہو گا۔