اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔}
(شرح فقہ اکبر، ملا علی قاری، ص۱۳۶ مطبوعہ مجتبائی، دہلی ۱۳۴۰ئ)
اس کے سوا خود آنحضرتﷺ نے علامات قیامت کے متعلق حدیث شریف میں پیش گوئی فرمائی ہے جو یہ ہے: ’’عن حذیفۃ بن اسید الغفاری قال اطلع النّبیﷺ علینا ونحن نتذاکر فقال ما تذاکرون قال نذکر الساعۃ قال انہا لن تقوم حتیٰ تروقبلہا عشر آٰیات فذکر الدخان والدجال والدابۃ وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ ابن مریم ویاجوج وماجوج وثلثۃ خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزیرۃ العرب وآخر ذلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الی محشرہم‘‘ {حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ نبیﷺ نے ہم پر جھانکا اور ہم آپس میں ذکر کرتے تھے۔ پس آپ نے فرمایا کیا ذکر کرتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک وہ اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھو گے۔ پھر ذکر کیا دخان دھواں کا اور دجال کا اور دابۃ الارض کا اور سورج کے مغرب سے چڑھنے کا اور عیسیٰ ابن مریم کے نزول کا اور یاجوج ماجوج کا اور تین خسوف کا ایک خسف مشرق کی زمین میں، ایک خسف مغرب کی زمین میں اور ایک خسف جزیرۃ العرب میں اور سب سے آخری نشان ایک آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی جو لوگوں کو زمین حشر کی طرف ہانکے گی۔} (مشکوٰۃ باب العلامات، فصل اوّل)
علامہ ابی المنتہیٰ نے اپنی کتاب شرح فقہ اکبر میں اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو کتاب مذکور ص۳۶، مطبوعہ مجتبائی دہلی نومبر ۱۹۱۰ئ) اب دیکھنایہ ہے کہ مرزا قادیانی بھی اس حدیث کو مانتے ہیں یا نہیں؟ سو وہ لکھتے ہیں کہ: ’’دخان‘‘ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے کچھ آخر زمانہ سے ہی خاص نہیں ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اول ص۵۶ طبع پنجم ۲۱۲)
اس جگہ دخان سے مراد قحط عظیم وشدید ہے جو سات برس تک آنحضرتﷺ کے زمانہ مبارکہ میں پڑا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے مردے اور ہڈیاں کھائی تھیں۔ لیکن آخری زمانہ کے لئے بھی جو ہمارا زمانہ ہے۔ اس دخان مبین کا وعدہ تھا اس طرح پر کہ قبل از ظہور مسیح نہایت درجہ کی شدت سے اس کا ظہور ہوگا۔ اب سمجھنا چاہئے کہ یہ آخری زمانہ کا قحط جسمانی اور روحانی دونوں طور سے وقوع میں آیا۔ جسمانی طور سے اس طرح کہ اگر اب سے پچاس برس گزشتہ پر نظر ڈالی جائے تو