التحقیق الصحیح فی حیات المسیح
امام بخاری پر اعتراض کی تہمت
حافظ جی کو ان کے مزعومہ مجدد کی وراثت میں اور کچھ ملایا نہ ملا مگر اس کا ہم نے ضرور اندازہ لگا لیا کہ جھوٹ کا ورثہ ان کو کافی مقدار میں نصیب ہوا اسی لئے وہ ایسے بیان کے متعلق بھی جھو ٹ بولتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے جس کے سننے والے ان کے پڑوس ہی میں بہت سے موجود ہیں۔
ہم نے ’’متوفیک‘‘ کے معنوں (حافظ جی نے اسی طرح لکھا ہے) کے متعلق بخاری پر اعتراض ہرگز نہیں کیا۔ بلکہ حضرت امام بخاریؒ کی ذمہ داری کے متعلق یہ بیان کیا کہ وہ اپنی صحیح میں جہاں سند صحیح کے ساتھ احادیث کو ذکر فرماتے ہیں وہاں تعلیقات کو بھی ذکر کرتے ہیں۔ (حافظ جی تو شاید تعلیق کی اصطلاح کو بھی نہ جانتے ہوں گے۔) حضرت ابن عباسؓ کا وہ قول جو امام بخاری نے نقل کیا اور مرزائی اس کو بڑی شدومد سے دلیل میں لاتے ہیں اس کو امام صاحب نے مستند احادیث میں داخل نہیں فرمایا بلکہ تعلیقات ہی کے ضمن میں ذکر کیا اور امام بخاری کی تعلیقات وآثار موقوفہ علی الصحابہ کے متعلق علامہ سخاوی ’’فتح المغیث ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح بخاری کی روایات میں صحت کی ذمہ داری لے کر امام بخاری جس چیز کو نقل فرماتے ہیں وہ صرف وہی احادیث ہیں جن کی سند انہوں نے بیان فرمائی: ’’دون التعلیق والاثار الموقوفۃ علی الصحابہ‘‘ نہ کہ تعلیقات اور وہ آثار جو کہ صحابہ پر موقوف ہیں۔‘‘ بقول سخاوی، امام بخاری ان کی ذمہ داری ہی نہیں لیتے۔
ہمارے اس کہنے کو ’’امام بخاری پر اعتراض‘‘ سے تعبیر کرنا ایک کھلا افتراء ہے۔ امام بخاری روایت میں بے حد محتاط جانتے تھے کہ اس اثر ابن عباس کے راوی ایسے مستند نہیں ہیں جیسے اور ان احادیث کے جو انہوں نے ذکر فرمائی اس لئے انہوں نے ان کو بسند ذکر ہی نہیں فرمایا کہ ان پر ذمہ داری رہے۔
اب وہ جرح ملاحظہ کیجئے جو اس اثر کے راوی پر علماء رجال نے فرمائی ہم نے اپنی طرف سے بے ثبوت نہ کچھ کہا، نہ کہیں احادیث وآثار کی جانچ پڑتال کتب اسمائے رجال سے ہوتی ہے اور اس کا یہ طریق۔
قسطلانی نے اس اثر کے اسناد کو اس طرح ذکر فرمایا: ’’وقال ابن عباسؓ فما رواہ ابن ابی حاتم من طریق علی بن طلحۃ عنہ فی قولہ تعالیٰ یا عیسیٰ انی