طرح مریں گے۔‘‘ ناظرین نے دیکھ لیا کہ ابن عباسؓ کس صراحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں۔
جو اس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اس بت کو خدا سمجھے
حافظ جی کا پانچ سو روپیہ انعام
تین مہینے خواب غفلت میں پڑے رہنے کے بعد لوگوں کے جھڑجھڑانے سے ذرا آنکھ کھلی تو نیند کی اونگھ میں حافظ جی کو وہی گرو جی کی پرانی چال یاد آئی جس میں سادہ لوح بہت جلد پھنس جاتے ہیں، حافظ جی میں اگر ہمت اور جرأت تھی تو ہمارے بلانے ہی پر سہی سامنے آتے۔ ہم کیا ہیں کہ ہماری علمیت وہ دیکھتے۔ ہاں! اﷲ جل وعلا رسول اﷲﷺ وصحابہؓ نے جو کہا ہے وہ انہیں سناتے اور دکھاتے۔ اس وقت ان کی انعام بازی کی ساری قلعی کھل جاتی، روپیہ کے لالچی تو حافظ جی ہی ہوں گے کہ ماہانہ سو روپلی کے لئے باوصف بے علمی اشتہار بازی پر مجبور ہوئے۔ ہم یقینا پہلے روز ہل کے مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے (جومرزائیوں کے ہاتھوں برباد ہی ہورہی ہے۔)ان سے کہتے کہ پانچ سو روپیہ کسی معتمد کے پاس جمع کیجئے اور نفس جواب لیجئے، اب کہ ہم اپنے بھولے بھائیوں کو سمجھانے کے لئے یہ سطور لکھ رہے ہیں کہ جب حسبۃ ﷲ انہیں مرزائی چال کا پول کھو ل کر دکھائے دیتے ہیں۔
حافظ جی لکھتے ہیں اور اپنی طرف سے نہیں اپنے گرو جی کی عمر بھر کی علمی پونجی کا خلاصہ سامنے لاتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ایک بھی ایسی مثال قرآن سے، حدیث سے، لغت عرب سے پیش کردیں کہ فعل توفیٰ باب تفعل سے ہوا اور اس کا فاعل اﷲ ہو اور مفعول کوئی انسان ہو اور پھر اس کے معنی قبض روح کے سوا قبض جسم وغیرہ کے ہوں۔‘‘ یہ تو ایک علیحدہ بات ہے کہ چونکہ شاید اونگھ کی حالت میں حافظ جی لکھ رہے ہیں لہٰذا مرزا قادیانی کی پوری تحریر یا تو سمجھ ہی میں نہ آئی یا لکھتے وقت پھر جھونکا آگیا، لہٰذا ان کے دعوے کو پوری طرح نہ لکھ سکے بہر نوع ہمیں تنقیح دعویٰ کے لئے اول یہ دکھانا ہے کہ قبض روح سے مرزا قادیانی کی کیا مراد ہے؟ اور ان کے نزدیک اس کے کیا معنی؟
الف… ’’تمام مقامات میں توفی کے معنی موت اور قبض روح کئے گئے ہیں۔‘‘
(ازالہ الاوہام ص۸۸۶، خزائن ج۳ ص۵۸۳)
ب… ’’صرف ایک ہی معنی قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۸۸۶، خزائن ج۳ ص۵۸۴)