قسم دوم ثبوت معجزہ
قرآن شریف سے معجزات کا وجود بلاشبہ ثابت ہے ۔اگرچہ ہم مذکورہ بالا آیت سے وجود معجزہ ثابت کر چکے ہیں ۔تاہم اسی آیت میں پھربحث کرتے ہیں۔دیکھو:’’وما تلک بیمینک یاموسیٰ‘‘{اورکیا ہے یہ بیچ ہاتھ تیرے کے اے موسی علیہ السلام؟} یہ پرور دگار نے موسیٰ علیہ السلام کو کیا کہا کہ وہ تو عالم الغیب ہے۔اس لئے کہ پروردگار نے موسیٰ علیہ السلام کے عصا کواژدھا بنانا تھا اورانسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ سانپ یا اژدھا سے ڈرتا ہے۔سو اس لئے عالم الغیب کو موسیٰ علیہ السلام کے ذہن نشین کرنا منظور تھا کہ یہ لکڑی تمہاری ہے۔ پھر ہم اسی بحث کو لکھتے ہیں ۔موسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کو جواب دیا کہ یہ عصا ہے۔جیسا کہ پروردگارموسیٰ علیہ السلام کا قول بیان فرماتا ہے۔دیکھو:’’قال ھی عصائی ‘‘ آخر پروردگار نے فرمایا کہ ڈال اس کو:’’قال القہایاموسیٰ ۔‘‘پھر پروردگار خود فرماتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے عصاڈال دیا۔پھر ناگہاں عصاء موسیٰ علیہ السلام اژدھا دوڑنے والا دیکھو آیت ہذا:’’فالقہا فاذ اھی حیۃتسعٰے‘‘ناظرین اب کون کہہ سکتا ہے کہ عصا لکڑی نہیں ہوتی اور کون کہہ سکتا ہے کہ حیہ کے معنے سانپ نہیں۔ کون کہ سکتا ہے کہ تسعے سے مراد حرکت کرنا یا دوڑنا امر نہیں۔ پھر معجزات سے انکار کرنا توعلانیہ قرآن شریف کا انکار کرنا ہوا۔ اب ہم یدبیضا کی تعریف نہیں کرتے جو کہ مابعد مضمون مذکورہ بالا کے ہے۔ ناظرین خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔اب ہم ایک اورنظیر ثبوت معجزات پیش کرتے ہیں:’’واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق۔اذقربا قربانا فتقبل من احد ھما ولم یتقبل من الاخر (المائدہ:۶۷)‘‘
ارباب بصیرت پر مخفی نہ رہے کہ آیت ہذا سے چار امر ثابت ہوئے ہیں۔
امر اوّل… آنحضرتﷺکو حکم ہوا کہ قصہ دونوں بیٹوں آدم کا مخالفین کو سنا۔
امردوم… یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ قصہ دونوں بیٹوں کا تھا۔
امرسوم… یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے قربانی دی۔
امر چہارم… یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک کی قربانی جناب الٰہی میں قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔نتیجہ بحث ہذا کا یہ ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی۔اس کا وہ قبول ہونا ہی معجزہ ہے۔ اوّل یہ قول منجانب اللہ ہے۔پس اس آیت ہذا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ معجزہ کا رواج آدم علیہ السلام سے ہی شروع ہے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺکو مخالفین اہل کتاب اور کفار اسی قدیمہ رواج