عیسیٰ فی المہدی وقد اقیمت الصلوٰۃ فیشیر المہدی بعیسیٰ بالتقدم فیمتنع معللا بان ہذہ الصلوۃ اقیمت لک فانت اولی بان تکون الامام فی ہذہ المقام ویقتدی بہ لیظہر متابعتہ لنبیناﷺ کما اشارﷺ الی ہذا المعنیٰ بقولہ لو کان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی…الخ‘‘ {اور دجال اور یاجوج اور ماجوج کا نکلنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: یہاں تک کہ سب یاجوج اور ماجوج کھول دئیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے تیزی سے نکل پڑیں گے یعنی دوڑیں گے اور سورج کا مغرب سے چڑھنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جس دن تیرے رب کے بعض نشان آئیں گے کسی شخص کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا تھا یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی یعنی کافر کو اس کا ایمان اس وقت میں نفع نہ دے گا یعنی سورج کے مغرب سے چڑھنے کے وقت اور نہ فاسق کو اس کی توبہ نفع دے گی۔ جس نے اپنے ایمان میں نیکی نہیں کی یعنی کسی شخص کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا اور نہ ایمان میں اس کا کام اگر وہ اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان میں نیکی نہیں کمائی تھی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اور بے شک وہ یعنی عیسیٰ ساعت کے لئے علم ہے۔ یعنی قیامت کا نشان ہے اور اﷲتعالیٰ نے پہلے یعنی عیسیٰ کی موت سے پہلے قیامت کے قریب جبکہ وہ نازل ہوں گے۔ آپ کے وقت میں تمام قومیں ایک ہوجائیں گی۔ اور وہ ملت اسلام حنیف ہوگی۔ ایک نسخہ میں سورج کا چڑھنا باقی (علامات) پر مقدم کیا گیا ہے اور ہر تقدیر پر ’’وائو‘‘ صرف جمع کے لئے ہے۔ ورنہ ترتیب قضیہ اس طرح پر ہے کہ اول امام مہدی علیہ السلام حرمین شریفین میں ظاہر ہوں گے پھر وہ بیت المقدس میں آئیں گے۔ پھر دجال آئے گا اور وہ اس حال میں ان (امام) کو گھیر لے گا۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام دمشق شام میں منارہ شرقیہ سے نازل ہوں گے اور دجال کے جنگ کی طرف آئیں گے۔ اور اس کو ایک ضرب سے اس وقت قتل کریں گے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کے وقت ( اس طرح) پگھل جائے گا جیسے پانی میں نمک۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی کے ساتھ نماز کے لئے اکٹھے ہوں گے۔ امام مہدی علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آگے ہونے (یعنی امام بن کر جماعت کرانے) کے لئے اشارہ کریں گے۔ وہ انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اس نماز کی امامت تیرے حصے ہے اور تو بہتر ہے کہ اس جگہ امام ہو اور وہ ان (امام مہدی) کے ساتھ اقتداء کریں گے تاکہ ہمارے نبی ﷺ کی متابعت ظاہر ہو۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے اپنی حدیث میں اس بات کی طرح اشارہ کیا ہے۔