جب خوش اعتقادوں نے اس پر بھی اف نہ کی تو مرزاقادیانی تھے آدمی ہوشیار۔ انہوں نے خیال کیا کہ جب مصدقین اس بری طرح اپنی عقلوں کو ہم اورہمارے کلام پر نثار کر رہے ہیں تو اب کوئی کسر اٹھا رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ چنانچہ انہوں ان کی ضرورت کے مطابق ان کو فوراً الہام ہوا: ’’انت منیبمنزلۃ ولدی ‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۶،خزائن ج۲۲ص۸۹)
لڑکے بننے کے بعد اب خدائے تعالیٰ کے ہاں بے تکلف دوستی ہوتی ہے۔چنانچہ اپنے رسالہ (ضرورت الامام ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳) میں لکھ دیا ہے کہ: ’’خدا تعالیٰ اس عاجز سے بہت قریب ہو جاتا ہے اورکسی قدر پردہ اپنے روشن چہرہ سے اتار دیتا ہے اور میں اپنے تئیں ایسا پاتا ہوں کہ گویا مجھ سے ٹھٹھا کر رہا ہے۔‘‘
اقول… جب ٹھٹھے بازی کی نوبت پہنچ گئی تو اب برابر کی دوستی میں کیا شبہ رہا۔ اس کے بعد مرزاقادیانی عین خدا ہو جاتے ہیں۔چنانچہ الحکم مورخہ ۲۴فروری ۱۹۰۵ء میں مرزا قادیانی کا الہام لکھا ہے:’’انما امرک اذااردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون ‘‘ اور (حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ص۱۰۸)میں بھی ہے۔
اقول:مرتبہ :’’کن فیکون‘‘ حاصل ہونے کے بعد ان میں اورخدائے تعالیٰ میں کیا فرق رہا؟ نعوذ باﷲ!
دیکھئے پیارے ناظرین سلسلہ کہاں سے شروع ہوا اوراس کا خاتمہ کہاں ہوا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس کے بعد مجددیت کے پردے کی آڑ لیتے رہے اورمثیل مسیح موعود اور مثیل مصطفیﷺ اپنے کو لکھتے رہے۔غرض کہ مرزاقادیانی اپنی تحریرات کے بموجب خدا بھی تھے۔ خدا کی اولاد بھی تھے اورخدا کے دوست بھی تھے۔ کرشن بھی تھے۔ مہدی بھی تھے۔ مجدد بھی تھے۔ مسیح بھی تھے اورظلی نبی بھی تھے اور نامعلوم کیا کیاتھے۔ ان پرایمان لانا بھی فرض تھا۔کیونکہ نبی تھے اور بالکل فرض نہ تھا۔کیونکہ صرف مجدد تھے۔ غرض کہ مرزاقادیانی سب کچھ تھے اورکچھ نہ تھے۔ لاحول ولاقوۃ الاباﷲ!
خاتم پیغمبران صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں
خاتم پیغمبران علیہ الصلوٰۃ والسلام باعتقاد اہل ملت اسلام ایک سے زیادہ نہیں اور نہ