کرو۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں روایت کی ہے اور بخاری نے حضرت عائشہؓ سے یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت سے طاعون کا حال دریافت کیا تو آپ نے بتلایا کہ یہ عذاب ہے جس پر اللہ چاہتا ہے بھیجتا ہے۔ لیکن مؤمنین کے حق میں اسے رحمت قرار دیتا ہے۔ جس شہر میں طاعون واقع ہو جو کوئی وہاں جمعیت قلبی اور صبر سے بغرض حصول اجر مقیم رہے اور سمجھے کہ میرا کچھ نہ بگڑے گا جو کچھ اللہ نے تقدیر میں لکھا ہے وہی ہوگا۔ اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
بلعم بن باعورا کا تاریخی واقعہ
اس کی تفصیل طبریٰ نے بروایت سلیمان حضرت یسارؓ سے یوں نقل کی ہے:’’ان رجلا کان یقال لہ بلعم کان مستجاب الدعوۃ۔ وان موسیٰ اقبل فی بنی اسرائیل یرید الارض التی فیہا بلعم فاتادہ قومہ فقالوا ادع اﷲ علیہم فقال حتیٰ اوامر ربی فمنع فاتوہ بہدیۃ فقبلہا وسالوہ ثانیا فقال حتی او امر ربی فلم یرجع الیہ بشیء فقالوا لو کرہ لنہاک فدعا علیہم فصار یجری علیٰ لسانہ ما یدعوا بہ علیٰ بنی اسرائیل فینقلب علیٰ قومہ فلاموہ علیٰ ذلک فقال سادلکم علیٰ مافیہ ہلاکہم ارسلوا النساء فی عسکرہم ومروہن لا یمتنعن من احد فعسیٰ ان یزنوا فیہلکوا فکان فیمن خرج بنت الملک فارادہا بعض الاسباط فاخبرہا بمکانہ فمکنتہ من نفسہا فوقع فی بنی اسرائیل الطاعون فمات منہم سبعون الفا فی یوم وجاء رجل من بنی ہارون ومعہ الرمح فطعنہما فایدہ اﷲ فانتظمہما جمیعا وہذا مرسل جیدوذکر ابن اسحاق ابن بنی اسرائیل لما کثر عصیانہم اوحی اﷲ الی داؤد فیخرہم بین ثلث اما ان ابتلیہم بالقحط اوالعدد وشہرین او الطاعون ثلاثۃ ایام فاخبرہم فقالوا اخترلنا فاختار الطاعون فمات منہم الیٰ ان ذالت الشمس سبعون الفاوقیل مائۃ الفتضرع داؤد الی اﷲ فرفعہ وورد وقوع الطاعون فی غیر بنی اسرائیل فیحتمل ان یکون ہو المراد بقولہ اومن کان قبلکم واخرج عبدالرزاق فی تفسیرہ و ابن جریر عن الحسن فی قولہ تعالیٰ الم تر الی الذین خرجوا من دیارہم وہم الوف حذر الموت قال افروا من الطاعون فقال لہم اﷲ موتوا ثم احیاہم لیکملوا بقیۃ اجالہم فاقدم من وققنا علیہ ما المنقول ممن وقع الطاعون بہ فی بنی اسرائیل فی قصۃ بلعام ومن غیرہم