دوسرے: ’’والذٓین کفروا وکذبوا بایتنا‘‘ یعنی اس ہدایت، اس پیغام کا انکار کرنے والے۔ اسی طرح یہاں دو گروہ ہیں ایک اصلاح کرنے والے دوسرے آیات یعنی پیغام الٰہی کی تکذیب کرنے والے پس دونوں آیتوں کا مطلب ایک ہے اور دونوں گروہوں کی جزا کا ذکر یکساں الفاظ میں ہے۔ دونوں میں سزا تکذیب پیغام کی ہے۔
ظلی نبوت
صوفی جسے ’’ظلی نبوت‘‘ کہتے ہیں وہ فی الواقع نبوت نہیں بلکہ نبوت کی بعض صفات کی جھلک ہے۔ جو ایک سچے پیروی کرنے والے میں پیدا ہوجاتی ہے۔ جس طرح ’’ظل اﷲ‘‘ نہیں اسی طرح ’’ظل نبی‘‘ نہیں اور نہ ظلی نبوت، نبوت ہے۔
ختم نبوت آنحضرتﷺ پر جو ایک ہی دنیا میں کامل انسان ہوا رحمت ہے
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’الا ان اولیاء اﷲ لا خوف علیہم ولاہم یحزنون۔ الذین آمنوا وکانوا یتقون۔ لہم البشریٰ فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ ۔ لا تبدیل لکلمت اﷲ ذلک ہو الفوز العظیم (یونس)‘‘ {سن لو اﷲ تعالیٰ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور وہ غمگین ہوں گے جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے، اﷲ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہ بڑی بھاری کامیابی ہے۔}
یہاں آیت کے آخر پر یہ لفظ لاکر (ذلک ہو الفوز العظیم) یعنی یہی بڑی بھاری کامیابی ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر انسان نبوت محمدیہ کے فیوضات کے ذریعہ سے پہنچ سکتا ہے، اس سے اوپر کوئی مقام نہیں اور یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اب نبوت نہیں تو کچھ بھی نہیں یا اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا دروازہ بند ہوگیا۔ حدیث میں ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت ولا رسول بعدی ولا نبی قال فشق ذلک علی الناس فقال ولکن المبشرات‘‘ {یعنی رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی اور میرے بعد کوئی رسول نہیں اور نہ کوئی نبی ہے تو یہ بات لوگوں پر شاق گزری۔ تو آپﷺ نے فرمایا: لیکن ’’مبشرات‘‘ باقی ہیں۔}جس میں یہی ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا مکالمہ ومخاطبہ جو اصل نعمت ہے وہ باقی ہے کیونکہ وہ معرفت الٰہی کا ذریعہ ہے اور اسی طرح اشارہ ہے۔ ’’رجال یکلّمون من غیر ان یکونوا انبیائ‘‘ میں۔ ہاں! نبوت کی اصل غرض چونکہ لوگوں پر اﷲ