د مرزاقادیانی اس بات کو مان رہے ہیں کہ تیرہ چودہ پندرہ۔تین راتوں میں چاند گہن اور ۲۷۔ ۲۸۔ ۲۹۔ ان تین دنوں میں سورج گرہن مقررہ نظام عالم ہے اور ان تاریخوں میں برابر چاند گہن اور سورج گہن طبعی نظام پرہوتا رہتا ہے۔ پھر رسول اﷲﷺ کا یہ فرمانا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے۔ ان تاریخوں میں گرہن نہیں ہوا نعوذ باﷲ غلط اور واقعات کے خلاف ہے۔ کوئی ذی علم قادیانی منذ خلق السمٰوات والارضکو محذوف مان کر اس حدیث کی ترکیب بیان کرے اور اس جملہ کے مرزاقادیانی کے خیال کے اعتبار سے ذکر کرنے کی وجہ ظاہر کرے۔
چوتھی غلطی
لم تکونامنذخلق السمٰوات والارضکا لفظی ترجمہ یہ ہے وہ دونشانیاں جب سے دنیا پیدا ہوئی نہیں ہوئیں اور مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں کسوف خسوف کو بے نظیر نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ اس نسبت کو بے نظیر ٹھہرایا گیا۔ کیا خوب اگر اس بے نظیر نسبت اظہار مطلوب تھا تو صرف لم تکن کافی تھا تکونا تثنیہ کی کیا ضرورت تھی مزید برآں جو شے کہ عامتہ الوردو ہو اور جس کا دورہ برابر بقاعدہ علم نجوم ہوتا رہے وہ ہر گز بے نظیر نہیں اور جو خود بے نظیر نہیں اس کی نسبت بے نظیر کیونکر ہو سکتی ہے؟ زیادہ تعجب تو اس پر ہے کہ مرزاقادیانی لم تکونا کو آیتیوں کے متعلق بتا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ نسبت ہی بے نظیر ہے اور پھر فرما رہے ہیں کہ یہ کسوف خسوف بے نظیر نہیں ٹھہرا یا گیا آپ ہی اقرار بھی کرتے ہیں کہ یہ نشانی بے نظیر ہے اور آپ ہی انکار بھی کرتے ہیںکہ یہ قدیم نظام عالم اور معمولی گہن ہے جو ہمیشہ اپنے مقرر وقت پر ہوتا رہتا ہے ۔ گہن کے آثارات سے یہی انسانی قویٰ میں مختلف اثر با عتبار استعداد بدنی ہوا کرتا ہے چونکہ چاند اور سورج دونوں کے گرہن پر مرزاقادیانی نے نظر دوڑائی اس لئے طبیعت میں مختلف اثر پیدا ہوگیا۔
پانچویں غلطی
مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا اس غرض سے نہیں تھا کہ وہ کسوف خسوف قانون قدرت کے بر خلاف ظہور میں آئے گا اور حدیث میںکوئی ایسا لفظ ہے بلکہ صرف یہ مطلب تھا کہ اس مہدی سے پہلے کسی مدعی صادق یا کاذب کویہ اتفاق نہ ہوا ہوگا کہ اس نے مہدویت یا رسالت کا دعویٰ کیا ہو اور اس کے وقت میں ان تاریخوں میں رمضان میں کسوف خسوف ہوا ہوتا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۴۶، خزائن ج۱۱ص۳۳۰)بیشک آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا اس