تراہ ولیس کلام الغزالی یوہمہ وانما رماہ حسادہ ولد قجاء علیہ ابن عطیۃ وفی جامع الصحاح روی محمد بن سعید الشامی المصلوب عن انس رفعہ انا خاتم النّبیین ولا نبی بعدی الا ان یشاء اﷲ فزاد الا ستثناء لما کان یدعوا الیہ من الالحادوا الزندقہ‘‘
یعنی محققین نے استثنائیہ فقرہ پر طعن کیا ہے کہ یہ محمد بن مسعود شامی کی ساخت ہے جو زندیقی کے باعث نذر صلیب ہوا۔ اگرچہ اس کی صحیح تاویل بھی ہوسکتی ہے۔ کہ استثناء کا مصداق مسیح بن مریم علیہ السلام کی ذات اطہر ہے اور کوئی نبی آنحضرتﷺ کے بعد نبوت جدیدہ سے ممتاز نہیں ہوسکتا کیونکہ رسالت مآب ﷺ کے خاتم النّبیین ہونے پر امت کا اجماع ہے اور آیت الاحزاب ختم نبوت پر صریح نص ہے اور جو قاضی نے اجراء نبوت کا احتمال کمزور الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یا غزالی نے اقتصاد میں ذکر کیا ہے وہ الحاد ہے اور اسلامیہ عقائد میں ایک خبیث راہ نکالی گئی ہے۔ اس کے مطالعہ سے بھی پرہیز کرنا لازم ہے۔ قاضی پر تو اعتراض بالکل درست ہے لیکن امام غزالی کے کلام سے یہ شائبہ پیدا نہیں ہوتا اسے محض حاسدین نے الزام دیا ہے اور ابن عطیہ نے اس پر دل کھول کر کلام کی ہے اور جامع الصحاح میں مذکور ہے کہ محمد بن سعید شامی نے حضرت انسؓ سے یہ روایت ذکر کی ہے: ’’انا خاتم النّبیین ولا نبی بعدی الا ان یشاء اﷲ‘‘ اور استثناء یہ فقرہ خود کلام میں بڑھا دیا ہے کیونکہ وہ الحاد اور زندیقی کی دعوت دیتا تھا۔
حدیث کا دعویٰ ہے کہ نبوت ختم ہوچکی ہے۔
حدیث اوّل
بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا:’’کانت بنوا اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون قال فماتامرنا قال فوابیعۃ الاوّل فاالاول فاعطوہم حقہم فان اﷲ سائلہم عما استرعاہم‘‘
(بخاری شریف ج۱ ص۴۹۱، مسلم شریف ج۲ ص۱۲۶)
{یعنی بنو اسرائیل پر انبیاء حکمرانی کرتے تھے ایک نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین بنتا میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔ خلفاء بکثرت ہوں گے راوی نے دریافت کیا کہ ہمیں خلفاء کے متعلق کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو خلفیہ اولاً بیعت لے چکا ہے۔ اس کے عہد بیعت کو پورا کرو اسی طرح نمبروار سلسلہ ہذا پر کار بندر ہو اور ان کے حقوق برابر ادا کرو۔ خدا تعالیٰ خلفاء کو