علیہ السلام ولا علیٰ ابراہیم علیہ السلام وغیرہم فی الانبیاء فاذا وصلت الی الذات المحمدیۃ ووجدتہا سکنت ووقفت لانہ الانسان الاجمع الاکمل وہو مطلوبہا وقد حصل فلوا جاز ان یکون بعد نبیناﷺ نبی ولم تختم النّبوۃ علیہ یلزم ان لا یکون الانسان الاجمع الاکمل بل یکون النّبی المتاخر الانسان الاجمع الاکمل فہو افضل منہ ویبطل قولہ تعالیٰ: {تبارک الذی…الخ! (ملک:۱)} کما مرفی التفصیل ولما کان فی ارادۃ اﷲ الا زلیۃ ان تختم النّبوۃ علی الواحدۃ کما ابتدات فی آدم علیٰ الواحدۃ وتذہب الاجنبیۃ وتصیر بنو آدم قوماً واحداً کما انہم تحت نوع واحد بعث تعالیٰ بالکتاب الجامع الکامل الانسان الجامع الکامل الیٰ العالمین کلہم نبیاً مشترکاً واحداً فصارت بنو آدم قوماً واحداً اختتاماً کما کانو ابتدائ۔
دلیل اول
قولہ تعالیٰ: ’’ما کان محمداً ابا احمد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ط وکان اﷲ بکل شیء علیما(الاحزاب:۴۰)‘‘{یعنی محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور اﷲ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔}
آنحضرتﷺ کی ابوت روحانی کا سلسلہ تا قیامت غیر منقطع ہے
اس آیت کا یہاں کیا تعلق ہے؟ اصل مضمون تو آنحضرتﷺ کا اسوہ حسنہ ہوتا تھا اور یہ کہ مومنوں کا تعلق آپ سے روحانی تعلق ہے اور آپ مومنوں کے لئے روحانی طور پر باپ ہیں، اسی مضمون کو یہاں ادا کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن چونکہ اس سے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی ’’ابوت‘‘ کی نفی کا اشتباہ پیدا ہوتا تھا س لئے حرف استدراک لکن سے فی الفور اس کا ازالہ کیا اور فرمایا : ’’رسول اﷲ‘‘ وہ اﷲ کے رسول ہیں، یعنی روحانی طور پر تمہارے باپ ہیں، کیونکہ ہر ایک رسول اپنی امت کے حق میں روحانی طور پر باپ کا حکم رکھتا ہے، جس طرح جسم کی ابتداء باپ سے ہوتی ہے، روحانیت کی ابتداء رسول سے ہوتی ہے۔ پس ’’رسول اﷲ‘‘ کا لفظ لاکر آپﷺ کی ابوت روحانی کو قائم کیا۔ لیکن یہاں پھر