قیا،فاتخذت من دونھم حجابا فارسلنا الیھا روحا فتمثل لھا بشرا سویا ،قالت انی اعوذ بالرحمٰن منک ان کنت تقیّا، قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا(مریم: ۱۶تا۱۹)‘‘{اوریاد کر بیچ کتاب کے مریم علیہا السلام کو جب جاپڑی لوگوں اپنے سے مکان شرقی میں پس پکڑ اورے ان سے وہ پس پہنچایا ہم نے طرف اس کے روح اپنے کو یعنی فرشتہ پس صورت پکڑ ی واسطے آدمی تندرست کے کہنے لگی تحقیق میں پناہ مانگتی ہوں تجھ سے اگرچہ توپرہیز گار ۔کہنے لگا سوائے اس کے نہیں میں بھیجا ہوا ہوں رب تیرے کا تاکہ بخش جاؤں تجھ کو لڑکا پاکیزہ} اے ناظرین! یہاں بھی بہتان مرزائیہ سے مریم علیہا السلام پاک ہیں۔
فصل دوم… اغراض قرآنی متعلقہ عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں
غرض اوّل کیفیت تولد عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں
’’فحملتہ فانتبزت بہ مکانا قصیاء فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیاء منسیا ۰ فنادھا من تحتہا الا تحزنی قد جعل ربک تحتک سریا ۰ وھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطباجنیا (مریم:۲۲تا۲۵) ‘‘{پس حاملہ ہوگئی ساتھ اس کے پس جاپڑی ساتھ اس کے مکان دور میں پس لے آیا اس کو دروازہ کی طرف رخنے درخت خرما کے کہا اے کاش کہ میں مر گئی ہوتی پہلے اس سے اورہوتی بھولی بھولائی پس پکارا اس کو پیچھے اس کے سے یہ کہ مت غم کھا تحقیق کر دیا رب تیرے نے نیچے تیرے چشمہ اورہلابیخ کھجور کے کو طرف اپنی ڈالے گی اوپر تیرے کھجور تازی۔}
اے ارباب بصیرت ماقبل کی دوآیتوں سے آپ کو ثابت ہوگیا ہوگا کہ دو احسان یعنی تازہ خرما اورچشمہ آب بھی طاقت بشری اورمرزاقادیانی کے علم سے بعید ہیں۔ اگر خرماتازہ اورچشمہ احسان الٰہی ماناجاوے تو تولد عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ ماننے میں کیا مشکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ اوررفع الیٰ السماء بجسد عنصری نہ مانا جاوے تو دو مشکل پیش آتی ہیں۔ ایک تو تمام معجزوں کا انکار کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ کھجور اورچشمہ کا یہاں خداتعالیٰ بیان فرماتا ہے۔ یا اور مقامات میں معجزے پیغمبروں کے بیان فرمائے ہیں۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کا دریائے نیل سے عبور کرنا اورفرعون کا غرق ہونا اورموسیٰ علیہ السلام کے عصاء کا اژدھا بننا ہاتھ مبارک کا سفید ہونا پتھر سے بارہ چشموں کا نکلنا ابراہیم علیہ السلام کے وجود کاآتش نمرودی کو سرد کرنا سلیمان علیہ السلام کے مصاحبوں سے ایک شخص کا بلقیس کو طرفۃ العین میں لانا ۔صالح کی