اٹھانے والا ہوں۔ کیونکہ تواتر کے ساتھ رسول اﷲﷺ سے ثابت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوگا اور دجال کو قتل کرے گا پھر زمین میں ایک مدت تک رہے گا۔ جس کا ذکر باختلاف الروایت پہنچا ہے پھر مرے گا اور مسلمان اس پر جنازہ پڑھیں گے اور اس کو دفن کریں گے۔ (ابن جریر ج۳ ص۱۸۴)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق حضرت ابن عباسؓ کا عقیدہ
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے بھی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے:
۲… تفسیر در منثور میں ہے: ’’واخرج اسحق بن بشرو ابن عساکر من طریق جوہر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ {انی متوفیک ورافعک} یعنی رافعک ثم متوفیک۱؎ فی آخر الزمان‘‘{اسحاق بن بشر نے اور ابن عساکر بطریق جوہر ضحاک سے روایت کی ہے کہ ابن عباسؓ نے ’’انی متوفیک ورافعک‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ تجھ کو اٹھائوںگا پھر آخر زمانہ میں ماروں گا۔} (درمنثور ج۳ ص۳۶ سطر۳۲)
۳… طبقات ابن سعد میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’وان اﷲ رفعہ بجسدہ وانہ حی الان وسیرجع الی الدنیا فیکون فیہا ملکا ثم یموت کما یموت الناس‘‘{اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس کو (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو) بجسد عنصری، اٹھالیا ہے اور بے شک وہ اس وقت تک زندہ ہے اور عنقریب دنیا کی طرف رجوع فرمائیں گے پھر اس دنیا میں بادشاہ ہونگے پھر مریں گے جس طرح لوگ مرتے ہیں۔}
(قہر یزدانی بحوالہ، طبقات ابن سعد، جلد اول، ص۲۶)
نوٹ… یہ وہی حضرت ابن عباسؓ ہیں۔ جن کی تعریف خود مرزا قادیانی نے ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارے میں ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کی ایک دعا بھی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۰۴، خزائن ج۳ ص۲۲۵)
حدث میں ’’رجوع‘‘ کا لفظ
۴… خود آنحضرتﷺ نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی نہیں مرے چنانچہ وہ ارشاد یہ ہے:
۱؎ مرزائی کہا کرتے ہیں کہ ابن عباسؓ وفات مسیح کے قائل ہیں۔ یہ دونوں روایتیں ان کے قول کو رد کرتی ہیں۔ (ناظم)